ارشاد کھوکھر:
سندھ اسمبلی سے بلدیاتی ایکٹ میں ہونے والی حالیہ ترامیم کے بعد مرتضیٰ وہاب طاقتور میئر بن گئے ہیں۔ جبکہ مذکورہ ترامیم کے نتیجے میں سندھ بھر کے دیگر میئر اور چیئرمین کو بھی زیادہ اختیارات ملے ہیں۔ ترقیاتی اداروں ایم ڈی اے، ایل ڈی اے اور کے ڈی اے کے چیئرمین بھی میئر کراچی بن گئے ہیں۔ جبکہ سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا سربراہ بھی مرتضیٰ وہاب کو بنا دیا گیا ہے۔ بلدیاتی اداروں کے سربراہان کو اپنی مرضی سے میڈیکل کالج، اسکول، اسپتال، میوزیم، اسپورٹس کمپلیکس قائم کرنے کے اختیارات بھی تفویض کر دیے گئے ہیں۔
انہیں اپنے اداروں کی حدود میں ٹیکس نافذ کرنے، مضر صحت اشیا پر پابندی عائد کرنے، ترقیاتی اداروں کے ڈی جیز اور اپنے سفارش کردہ افسران تعینات کرانے کے اختیارات بھی دیئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی کے میئر کے ساتھ سندھ کے دیگر شہروں کے میئرز اور تمام ضلع کونسلوں میں چیئرمینز کے عہدوں پر جیالے منتخب ہونے کے بعد بلدیاتی اداروں میں فنڈز کی تقسیم کیلئے برسوں سے التوا کا شکار صوبائی مالیاتی کمیشن کا قیام بھی وجود میں آگیا ہے۔ میئر کراچی صوبائی مالیاتی کمیشن (پی ایف سی) کے ممبر بھی بن گئے ہیں۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق حکومت سندھ کی جانب سے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں پہلی ترمیم 2021ء میں کی گئی تھی۔ جس کے بعد چند روز قبل مذکورہ ایکٹ میں دوسری ترمیم کی گئی۔ جس کے تحت میئر کراچی کو پہلے کے مقابلے میں زیادہ مالیاتی اور انتظامی اختیارات حاصل ہوگئے۔
بلدیاتی ایکٹ میں کی گئی ترامیم کے مطابق اب کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی، ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی، لیاری ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین صوبائی وزیر بلدیات کی جگہ میئر کراچی بن گئے ہیں۔ مذکورہ ترقیاتی اداروں کے ڈائریکٹر جنرلز (ڈی جیز) کے عہدوں پر بھی میئر کے سفارش کردہ افسران تعینات ہوں گے۔ میئر کراچی ہر ادارے کے ڈی جی کیلئے تین افسران کے نام تجویز کرکے صوبائی حکومت کو ارسال کریں گے۔ ان میں سے ایک افسر کو تعینات کیا جائے گا۔ اس طرح کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا چیئرمین بھی میئر کراچی کو بنا دیا گیا ہے۔ جبکہ کراچی سمیت متعلقہ شہروں کے سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے سربراہان کے اختیارات بھی بلدیاتی اداروں کو تفوض کردیے گئے ہیں۔
میئر کراچی کو یہ اختیار بھی حاصل ہوگا کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کی تقرری کراسکیں۔ ایکٹ میں کی گئی دیگر ترامیم کے مطابق بلدیاتی اداروں کے سربراہان کو اپنے ادارے کی متعلقہ حدود میں ایک یا اس سے زائد مختلف ٹیکس نافذ کرنے کا اختیار مل گیا ہے۔ جس میں پارکنگ فیس سمیت مختلف فیس اور ٹول ٹیکس کی طرز کے ٹیکسز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ میڈیکل کالج، اسکولز، اسپورٹس کمپلیکس، چڑیا گھر، سفاری پارکس، آرٹ گیلریز، میوزیم وغیرہ کے قیام کے اختیارات بھی بلدیاتی اداروں کے سربراہان کو حاصل ہوگئے ہیں۔ انہیں یہ اختیار بھی مل گیا ہے کہ متعلقہ شہروں میں مضر صحت اشیا پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ اشیائے صرف سے متعلق اپنے ضابطے قائم کریں۔ بلدیاتی اداروں کے سربراہان کو اس بات کا بھی پابند بنایا گیا ہے کہ وہ لازمی تعلیم کے قانون پر عمل درآمد کرائیں گے۔
حالیہ بلدیاتی انتخابات کے بعد سندھ کے تقریباً 90 فیصد بلدیاتی اداروں کے سربراہان پیپلز پارٹی کے نامزد کردہ امیدوار بن گئے ہیں۔ ان میں سے کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کا میئر اور ڈپٹی میئر کراچی سمیت 25 ٹائون کارپوریشنز میں سے 13 ٹائون کارپوریشن کے چیئرمین بھی جیالے منتخب ہوئے ہیں۔ جبکہ حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، میرپور خاص، بے نظیرآباد (نوابشاہ شہر) کی میونسپل کارپوریشنز کے میئرز اور ڈپٹی میئر بھی پیپلز پارٹی کے ہیں۔ سندھ بھر کی تمام 22 ضلع کونسلز کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کے عہدوں پر بھی جیالے امیدوار کامیاب ہوئے۔ مختلف شہروں کی بیشتر میونسپل کمیٹیز اور ٹائون کمیٹیز کے چیئرمینز کے عہدے بھی پیپلز پارٹی کے پاس ہیں۔ اس طرح ادارہ ترقیات برائے حیدرآباد (ایچ ڈی اے) کے چیئرمین بھی میئر حیدرآباد بن گئے ہیں۔ جبکہ ادارہ ترقیات برائے سیوھن کے چیئرمین، ضلع کونسل جامشورو کے چیئرمین ہوگئے ہیں۔
جہاں تک بلدیاتی اداروں کی بات ہے تو 2016ء کے بلدیاتی انتخابات میں بھی بیشتر بلدیاتی اداروں پر پیپلز پارٹی کے امیدوار کامیاب قرار پائے تھے۔ اُس وقت بھی پیپلز پارٹی کی ہی سندھ میں حکومت تھی۔ لیکن اس وقت بلدیاتی اداروں کے سربراہان کو اتنے مالی اور انتظامی اختیارات تفویض نہیں کیے گئے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ ذرائع کے مطابق کراچی شہر رہا۔ کیونکہ 2016ء کے بلدیاتی انتخابات میں کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کے میئر کا عہدہ پیپلز پارٹی کے پاس نہیں تھا۔ اس وقت متحدہ کے وسیم اختر میئر منتخب ہوئے تھے۔ لیکن یہ پہلا موقع ہے جب کراچی کی میئر شپ بھی پیپلز پارٹی کے پاس آگئی ہے۔ جس کے باعث عملی طور پر سندھ کے تمام بلدیاتی ادارے پیپلز پارٹی کے کنٹرول میں ہیں۔ جبکہ انہیں وہ مالی و انتظامی اختیارات بھی دیئے گئے ہیں۔ جو پہلے پیپلز پارٹی صوبائی حکومت کی صورت میں اپنے پاس رکھتی آئی ہے۔
سندھ کے بلدیاتی اداروں میں فنڈز کی تقسیم کے حوالے سے ایکٹ میں یہ بات موجود تھی کہ صوبائی حکومت اور متعلقہ بلدیاتی اداروں کے درمیان فنڈز کی تقسیم کیلئے صوبائی مالیاتی کمیشن (پی ایف سی) قائم ہوگا۔ پی ایف سی میں طے ہونے والے فارمولے کے تحت تمام بلدیاتی اداروں کو فنڈز ملیں گے۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کئی برسوں سے پی ایف سی کی تشکیل کا معاملہ التوا کا شکار تھا اور صوبائی حکومت اپنے طے کردہ فارمولے کے تحت بلدیاتی اداروں کو فنڈز جاری کرتی رہی۔ جبکہ کئی منظور نظر بلدیاتی اداروں کو مختلف مد میں خصوصی گرانٹ بھی ملتی رہی۔ لیکن اب سندھ کا پورا بلدیاتی نظام پیپلز پارٹی کے کنٹرول میں آنے کے بعد صوبائی حکومت کو برسوں کے بعد پی ایف سی کے قیام کا خیال بھی آگیا۔ جس کی تشکیل بھی ہو چکی ہے۔
پی ایف سی کا چیئرمین صوبائی وزیر خزانہ اور شریک چیئرمین صوبائی وزیر بلدیات کو بنایا گیا ہے۔ حکومت کے نامزد کردہ دو اراکین سندھ اسمبلی ممبر ہوں گے۔ جن میں سے حکومت کی جانب سے محمد عالم جاموٹ کو نامزد بھی کردیا گیا ہے۔ اسی طرح سندھ اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر کے نامزدہ کردہ دو اراکین اسمبلی بھی پی ایف سی کے ممبر ہوں گے۔ محکمہ خزانہ، محکمہ بلدیات اور محکمہ منصوبہ بندی و ترقیاتی کے سیکریٹری بھی اس کے ممبر ہیں۔ جبکہ بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کے طور پر میئر کراچی مرتضیٰ وہاب، میئر سکھر ارسلان شیخ، چیئرمین ضلع کونسل ٹنڈو محمد خان قاسم نذیر شاہ، چیئرمین میونسپل کمیٹی عمر کوٹ خالد سراج سومرو، چیئرمین ٹائون میونسپل کمیٹی نعیم شیخ اور چیئرمین ٹائون کمیٹی فقیر آباد نثار خاص خیلی کو بھی پی ایف سی کا ممبر نامزد کیا گیا ہے۔ اس طرح بلدیاتی اداروں سے تعلق رکھنے والے جو اراکین پی ایف سی کے ممبر بنے ہیں۔ ان کا تعلق بھی پیپلز پارٹی سے ہے۔ جبکہ نجی ممبران کے کوٹے میں ریٹائرڈ بیوروکریٹ ڈاکٹر نور عالم، اقبال حسین شاہ کو بھی پی ایف سی کا ممبر بنایا گیا ہے۔
بلدیاتی ایکٹ میں جو ترامیم کی گئی ہیں۔ ان میں یہ بھی خیال رکھا گیا ہے کہ صوبائی مالیاتی کمیشن کا قیام التوا کا شکار نہ ہو۔ اس کے لئے یہ بات ایکٹ میں شامل کی گئی ہے کہ بلدیاتی انتخابات کی روشنی میں بلدیاتی اداروں کے سربراہان کے انتخاب کا مرحلہ مکمل ہوجانے کے بعد متعلقہ کونسلرز کا جو پہلا اجلاس ہوگا۔ اس کے 30 دن کے اندر آئندہ چار برس کیلئے صوبائی مالیاتی کمیشن تشکیل دیا جائے گا اور مالیاتی کمیشن اس بات کا پابند ہوگا کہ 180 دن (6 ماہ) کے اندر بلدیاتی اداروں کے درمیان فنڈز کی تقسیم کا فارمولا طے کرے۔ جہاں تک پی ایف سی کے قیام میں تاخیر کی بات ہے۔ تو اس کیلئے صوبائی حکومت یہ دلیل پیش کرتی رہی ہے کہ بلدیاتی انتخابات نہ ہونے کے باعث اس میں تاخیر ہوئی ہے۔ کیونکہ بلدیاتی اداروں کے منتخب نمائندوں کی بھی پی ایف سی میں نمائندگی ضروری ہوتی ہے۔ اب وہ مرحلہ مکمل ہونے کے باعث پی ایف سی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔
بلدیاتی ایکٹ میں یہ ترمیم بھی کی گئی ہے کہ کسی بھی ادارے کے میئر، ڈپٹی میئر، چیئرمین، وائس چیئرمین کی عدم موجودگی میں متعلقہ کونسل کے اراکین کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ کسی بھی متعلقہ ادارے کے کونسلر کو عارضی بنیادوں پر میئر اور چیئرمین منتخب کر سکیں۔