علی جبران : پہلا حصہ
دنیا میں متعدد ایسے بڑے لیڈرگزرے جنہوں نے ساری عمر جدوجہد کی۔ لیکن انہیں ادھیڑ عمری یا پھر بڑھاپے میں جاکر کامیابی ملی۔ اس کے برعکس پاکستان میں ایسے سیاستدانوں کی کمی نہیں جنہیں قدرت نے جوانی میں ہی نواز نا شروع کردیا تھا۔ لیکن بڑھاپے میں ان رہنماؤں یا سیاستدانوں نے اپنے لئے خود رسوائی خرید لی۔ ان میں سے بیشتر ستّر یا ستّر سال سے زائد عمر کے ہیں۔
اس سلسلے میں ماضی میں جانے کے بجائے حال پر ہی نظر ڈالی جائے تو اکہتر سالہ عمران خان اس فہرست میں سب سے اوپر ہیں۔ نوجوانی سے لے کر ادھیڑ عمری تک جنہوں نے بے انتہا مقبولیت، شہرت اور کامیابی حاصل کی۔ اب بڑھاپے میں ان کی رسوائی کے تماشے بھی سب کے سامنے ہیں۔ عمران خان کے عروج و زوال پر کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں اور ان کی زندگی کے نشیب و فراز سے پرانی اور نئی نسل کی اکثریت واقف ہے۔ لہذا اس کی تفصیل میں جانے کے بجائے آگے چلتے ہیں۔
دلچسپ اتفاق یہ ہے کہ بڑھاپے میں رسوائی کمانے والی فہرست میں شامل زیادہ تر سیاستداں وہ ہیں جو عمران خان کے ’’عشق‘‘ میں اندھے ہوگئے یا چیئرمین پی ٹی آئی کی پُر فریب مقبولیت کو کیش کراکے سیاسی کامیابی حاصل کرنے کے چکر میں پڑگئے اور دربدر ہوئے۔
گجرات کا ایک نام ور چوہدری بھی اسی فہرست میں شامل ہے۔ پاکستان بننے سے دو برس پہلے گجرات میں پیدا ہونے والے اٹہتّر سالہ چوہدری پرویز الہی انیس سو تراسی میں پہلی بار ڈسٹر کٹ کونسل کے چیئرمین منتخب ہوئے تھے۔
بعد ازاں انہوں نے اپنے فرسٹ کزن چوہدری شجاعت حسین کے ساتھ انیس سو پچاسی میں صوبائی سطح کی سیاست میں قدم رکھا۔ اس کے بعد پلٹ کر نہیں دیکھا۔ بے شمار بار پنجاب اسمبلی کا الیکشن جیتا۔ وزیر اعلیٰ بھی بنے۔ دو ہزار آٹھ میں پہلی بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوکر ڈپٹی وزیر اعظم کے منصب پر جا پہنچے۔
گزشتہ برس مختصر وقت کیلئے دوبارہ وزارت اعلیٰ کے سنگھاسن پر بیٹھے۔ غرض یہ کہ انیس سو تراسی سے لے کر انیس سو بائیس تک، پچھلے تقریباً چالیس برس، چوہدری پرویز الہی نے عروج ہی عروج دیکھا۔ پھر وہ یکایک تقدیر کی گردش کا شکار ہوئے اور تاحال گرداب میں پھنسے ہیں۔ اس صورتحال تک پہنچنے میں یقیناً ان کے غلط سیاسی فیصلے اور لغز شیں بھی کارفرما ہیں۔ لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ اقتدار کی ہوس میں قریبی خونی رشتوں سے بے وفائی بھی ان کی رسوائی کا ایک بڑا سبب ہے۔ چوہدری برادران کی جوڑی کی مثال دی جاتی تھی۔
دونوں کزن ہیں۔ لیکن لوگوں کی اکثریت انہیں سگے بھائی سمجھتی رہی۔ پھر یہ کہ دونوں میں دوہرا رشتہ بھی ہے۔ چوہدری شجاعت کی بہن چوہدری پرویز کی رفیقہ حیات، جبکہ چوہدری پرویز کی ہمشیرہ چوہدری شجاعت کی شریک حیات ہیں۔ جسے پنجابی میں ’’وٹہ سٹہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس قریب ترین رشتے میں جہاں پہلی بار سیاسی اختلاف نے دراڑ ڈالی۔ وہیں واقفان حال کے بقول اس بڑھاپے میں چوہدری پرویز الہی کی کم عمر خاتون سے خفیہ شادی بھی خاندان میں تفرقے کا سبب بنی۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عمر کے اس حصے میں ان سے غلط سیاسی فیصلے کرانے کے پیچھے ان کا بیٹا مونس الہی ہے۔ جو خود بیرون ملک پرتعیش زندگی گزار رہا ہے اور بوڑھا باپ قید میں ادھ مرا ہو چلا۔ شنید ہے کہ ’’بوڑھے انقلابی‘‘ کا پیچھا چھوڑ کر اگر گجرات کا چھوٹا چوہدری راہ راست پر آگیا تو شاید گردشوں سے نکل جائے۔ لیکن چار دہائیوں کے بے مثال عروج اور شان و شوکت کے بعد بڑھاپے میں لگنے والے رسوائی کے داغ کو کتاب زندگی کے ورق سے کھرچا نہیں جاسکے گا۔
پنجابی فلموں میں ’’بڑھکیں‘‘ اداکار اکمل نے متعارف کرائی تھیں۔ اسے عروج سلطان راہی نے دیا۔ سیاست میں ’’بڑھکوں‘‘ کا موجد شیخ رشید ہے۔ راولپنڈی کے بہتّر سالہ دیسی جیمز بانڈ نے ایوب خان کے دور میں زمانہ طالب علمی کے دوران ہی سیاست میں پاؤں رکھ دیا تھا۔ انیس سو بیاسی میں پہلی بار ایم این اے بنے۔ ریکارڈ آٹھ بار قومی اسمبلی کا ممبر منتخب ہو چکے ہیں۔ متعدد بار مختلف وزارتوں کے قلمدان ملے۔
اڑ تیس برس کے سیاسی عروج کے بعد آخر کار قدرت کے ٹائپ رائٹر نے ٹک ٹک کر کے ان کے ماتھے پر بھی رسوائی لکھ دی۔ قصور قدرت کا نہیں ان کا اپنا ہے۔ ابن الوقتی میں بے مثال شیخ رشید کے دوہرے سیاسی چہرے کو بڑھاپے میں بے نقاب ہونا ہی تھا کہ کسی ذی روح کو اس وقت تک موت نہیں آنی جب تک اس کا باطن، ظاہر نہ ہو جائے۔ چوہدری پرویز الہی اور شیخ رشید میں بہت سی قدریں مشترک ہیں۔ ایک یہ کہ دونوں منافقانہ طور پر ہی سہی، خبطی انقلابی کے پیروکار ہیں۔
دوسری یہ کہ دونوں نے ساری زندگی اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھ کر سیاسی عروج حاصل کیا اور دونوں پہلی بار اس چھتری سے محروم ہوئے ہیں۔ اس کے بعد سے راستے کا پتھر بن چکے کہ ہر آتے جاتے کی ٹھوکروں میں ہیں۔ ہتھکڑی کو زیور اور جیل کو سسرال کہنے والا لال حویلی کا شیخو گرفتاری کے خوف سے روپوش ہے۔ کل کا پتہ نہیں۔ لیکن آج کے زمینی حقائق یہی ہیں کہ عمران خان کی سیاست کا باب بند ہو چکا۔ یوں اس کے پیروکاروں کا، جن میں شیخ رشید شامل ہیں، سیاسی مستقبل بھی تاریک دکھائی دے رہا ہے۔
نواز شریف کب کے شیخ رشید کے نام کے آگے کر اس لگا چکے۔ پیپلز پارٹی ان سے نالاں ہی نہیں برہم ہے کہ اس کے جواں سال چیئرمین کے خلاف بوڑھے بدزبان نے جو غلیظ الفاظ استعمال کیے۔ وہ کسی معاشرے میں بھی قابل قبول نہیں۔ غرض یہ کہ راولپنڈی کے بڑھک باز کو اس کا تکبر اور بدزبانی لے ڈوبی۔ اس بڑھاپے میں بدنام زمانہ ٹک ٹاکر کے ساتھ لیک ہونے والی اخلاق باختہ ویڈیو نے اس کے باطن کی خباثت کو بھی آشکار کر دیا۔ روپوشی کے دنوں میں آج کل کسی نامعلوم مقام پر بیٹھ کر شیخ رشید اپنے ٹوئٹر اکائونٹ پرعجیب و غریب پوسٹیں کرتے رہتے ہیں۔
چند روز پہلے انہوں نے معروف مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر سے منسوب ایک دردناک غزل (جو درحقیقت مضطر خیرآبادی نے لکھی تھی) ’’نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں۔ نہ کسی کے دل کا قرار ہوں‘‘ بڑے پرسوز لہجے میں پڑھی۔ اب نہیں معلوم کہ وہ اس غزل کے ذریعے اپنی حالت زار بیان کر رہے تھے یا اپنے دوست عمران خان کا دکھڑا رو رہے تھے۔
پاکستان کی تاریخ میں وہ پہلا اور واحد طالب علم تھا جس نے ٹاپ پوزیشن میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کے باوجود ملازمت حاصل کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کا موقف تھا کہ وہ کسی فوجی حکومت میں ملازمت نہیں کر سکتا۔ یہ جنرل ایوب کا دور تھا۔ پھر ستّر کی دہائی میں وہ سیاست میں آگیا۔
مارچ انیس سو پچھتر کی بات ہے جب گجرات میں پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی چوہدری انور سماں کو قتل کر دیا گیا۔ مقتول کی نشست پر وہ بلا مقابلہ منتخب ہوا۔ اسے صوبائی وزارت کا قلمدان ملا۔ انیس سو ستتر کے انتخابات میں دھاندلی پر پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی تحریک چلی تو لاہور میں وکلا کی ایک ریلی پر پولیس فائرنگ کا واقعہ رونما ہوا۔ جس پر اس نے احتجاجاً وزارت سے استعفی دے دیا۔ نتیجتاً پیپلز پارٹی کی قیادت نے اسے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے پر پارٹی سے نکال دیا۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں وہ تحریک بحالی جمہوریت کا سرگرم رکن بن گیا۔ اور ایک بار پھر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ اپنے اڑتالیس سالہ سیاسی کیریئر میں وہ داخلہ، قانون و انصاف، نارکوٹکس کنٹرول، تعلیم کا وزیر رہا۔ رکن سینیٹ بھی بنا۔ قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے منصب پر بھی فائز رہا۔ غرض یہ کہ سیاست میں خوب شہرت اور دولت کمائی۔ یہ شہرت داغدار بھی ہوئی۔
جنوری دو ہزار نو میں مائع گیس کے کاروبار میں کمیشن کے ذریعے ناجائز مال بنانے والوں کی لسٹ میں اس کا نام بھی شامل تھا۔ لیکن اس نے اس بدنامی کو ’’منّی کی بدنامی‘‘ سے کم تصور کیا۔ چنانچہ زیادہ توجہ نہیں دی۔ اس سے قبل اس پر یہ سنگین الزام بھی لگ چکا تھا کہ بطور وزیر خارجہ اس نے بھارت میں سکھوں کی آزادی تحریک کے اہم رہنمائوں کی لسٹ اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کو دی۔ جس کے بعد آپریشن کے ذریعے اس تحریک کو کچل دیا گیا۔
ساری عمر آمروں کے خلاف خود کو ’’مزاحمتی استعارے‘‘ کے طور پر پیش کرنے والا یہ سیاستدان اب عمر کی اس منزل پر ہے۔ جہاں قدرت انسانی شخصیت پر چڑھی ملمع کاری پیاز کے چھلکوں کی طرح اتارنا شروع کر دیتی ہے اور اصل چہرہ سامنے آنے لگتا ہے۔ جی یہ بات ہو رہی ہے چوہدری اعتزاز احسن کی۔ جنہیں پیپلز پارٹی نے زمین سے اٹھا کر آسمان پر بٹھایا۔ لیکن اپنی مصنوعی اصول پسندی کے تاثر کو قائم رکھنے کے لیے انہوں نے پہلے ذوالفقار علی بھٹو اور پھر آصف علی زرداری سے بے وفائی کی۔ قومی اتحاد کی تحریک کے دوران جب بھٹو کو ان کی ضرورت تھی تو یہ اس مشکل و قت میں انہیں چھوڑ کر وکلا کے ساتھ جا ملے۔
چنانچہ انہیں پارٹی سے نکال باہر کیا گیا۔ بے نظیر بھٹونے دوبارہ پارٹی میں لے لیا۔ صدر زرداری کے دور میں وہ ایک بار پھر اپنی ہی حکومت کے خلاف وکلا تحریک کے سرخیل بن گئے۔ ان دنوں انہیں عمران خان سے ’’عشق‘‘ ہوگیا ہے۔ یعنی وہ ایک ایسے شخص کی سپورٹ میں کھڑے ہوگئے ہیں۔ جو آصف زرداری اور بلاول بھٹو سمیت پارٹی کی سینئر قیادت کو گالیاں دیتا نہیں تھکتا۔ بوڑھے انقلابی کے ساتھ اس عشق کو وہ اپنے تئیں اصول پسندی کا نام دیتے ہیں۔ درحقیقت وہ مسلسل پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے تھے۔
آخر کار اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی پارٹی رکنیت ختم کردی گئی ہے۔ اس سے قبل پیپلزپارٹی پنجاب نے اعتزاز احسن کی رہائش گاہ کے محاصرے کا اعلان کیا تھا، جو بعد میں موخر کردیا گیا۔ پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے قائم مقام صدر رانا فاروق سعید کا کہنا تھا کہ اعتزاز احسن عمران خان کی حمایت میں مسلسل پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ (جاری ہے)