علی جبران : دوسرا حصہ ، آخری
بڑھاپے میں زوال کا شکار ہونے والے پاکستان سیاستدانوں کے حوالے سے گزشتہ قسط میں عمران خان، شیخ رشید، چوہدری پرویز الٰہی اور اعتزاز احسن کا ذکر کیا جاچکا ہے۔ اس فہرست میں لطیف کھوسہ، اعظم سواتی اور شوکت ترین بھی شامل ہیں۔
سردار لطیف کھوسہ 77 برس پہلے جنوبی پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے۔ طالب علمی کے دوران ہی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ وکلا سیاست میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ وہ تین مرتبہ ملتان بنچ کے صدر منتخب ہوئے اور ملک میں وکلا کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم پاکستان بار کونسل کے تین مرتبہ رکن چنے گئے۔ لطیف کھوسہ ابتدا میں ہی پیپلز پارٹی کا حصہ بن گئے تھے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے مختلف ادوار میں انہیں سینیٹر، اٹارنی جنرل، گورنر پنجاب اور وزیر اعظم کا مشیر بنایا۔ وہ پیپلز پارٹی کی وکلا تنظیم پیپلز لائرز فورم پاکستان کے صدر بھی رہے۔
غرض یہ کہ پیپلز پارٹی نے لطیف کھوسہ کو ایک عام وکیل سے ملک کی اہم ترین شخصیت بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ لیکن عمر کے آخری حصے میں انہوں نے اس احسان کا بدلہ یوں چکایا کہ پیپلز پارٹی کی سخت مخالف سیاسی پارٹی تحریک انصاف کی ’’زلف گرہ گیر‘‘ کے اسیر ہوگئے۔ اس ’’مشن‘‘ میں اعتزاز احسن بھی ان کے ساتھ ہیں۔ پی پی پی ذرائع بتاتے ہیں کہ ابتدا میں انہیں پارٹی قیادت کی جانب سے انتباہ کیا جاتا رہا کہ وہ پارٹی پالیسی سے انحراف کے راستے کو ترک کر دیں۔ لیکن موجودہ اتحادی حکومت کے خلاف، جس کا حصہ پیپلز پارٹی بھی ہے، وہ مسلسل زہر اگلتے رہے۔ اس کے نتیجے میں پہلے ان سے پیپلز لائرز فورم پاکستان کی صدارت واپس لی گئی اور پھر پارٹی رکنیت سے بھی محروم کر دیا گیا۔ حتیٰ کہ پیپلز پارٹی پنجاب نے ان کی تصویر ’’دیوارِ شرم‘‘ پر لگادی ہے۔ یوں ساری عمر عروج دیکھنے والے لطیف کھوسہ اب اس شعر کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں کہ ’’تیری نگاہ بدلنے سے پہلے۔ ستارہ زمین پر میں آسمان پر تھا‘‘۔
لطیف کھوسہ کا کیریئر مختلف الزامات کی زد میں بھی رہا۔ انہیں اگست دو ہزار آٹھ میں جسٹس (ر) ملک قیوم کی جگہ اٹارنی جنرل مقرر کیا گیا تھا۔ لیکن ایک برس بعد ہی اس عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ اس کا سبب مغفور شاہ نامی شخص کی سپریم کورٹ میں دائر درخواست تھی۔ جس میں ایک مقدمے میں مدعی کو بری کرانے کے لئے لطیف کھوسہ پر تیس لاکھ روپے لینے کا الزام لگایا گیا تھا۔ اسی طرح معزول ججوں کی بحالی کی تحریک ترک کرنے پر بعض ڈسٹرکٹ بارز میں ان کے داخلے پر پابندی لگادی گئی تھی۔ لطیف کھوسہ ایک وقت میں بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے وکیل بھی رہے۔ لیکن ان خدمات کی انہوں نے بھاری فیس وصول کی۔ پیپلز پارٹی پنجاب کے قائم مقام صدر رانا سعید کے بقول موجودہ اتحادی حکومت پر وہ صرف اس لئے تنقید کر رہے ہیں کہ ان کے بیٹے کو اٹارنی جنرل پاکستان کا عہدہ نہیں دیا گیا۔
انیس سو چھپن میں مانسہرہ میں آنکھ کھولنے والے اعظم سواتی نے اپنے کیریئر کا آغاز کراچی میں ایک عام وکیل کے طور پر کیا تھا۔ انیس سو اٹھہتر میں امریکہ چلے گئے۔ وہاں پاک آئل کمپنی قائم کی۔ ریئل اسٹیٹ میں بھی سرمایہ کاری کی۔ دو ہزار ایک میں جب وہ پاکستان لوٹے تو ارب پتی بن چکے تھے۔ پاکستانی سیاست میں چونکہ دولت مندوں کے لئے بہت جگہ ہے۔ لہٰذا انہیں مختلف سیاسی پارٹیوں کی جانب سے آفرز ہوئیں۔ انہوں نے ابتدا میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کا انتخاب کیا۔ پاکستان واپس آنے کے بعد سواتی نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز مانسہرہ کی میئر شپ سے کیا تھا۔ تاہم دو ہزار تین میں وہ آزاد امیدوار کے طور پر سینیٹ کے رکن منتخب ہوگئے اور جمعیت علمائے اسلام (ف) میں شمولیت اختیار کی۔
دوسری بار وہ جے یو آئی (ف) کے ٹکٹ پر سینیٹر بنے۔ دو ہزار گیارہ میں جب تحریک انصاف ملک کے سیاسی افق پر تیسری قوت کے طور پر ابھر رہی تھی تو اعظم سواتی نے جے یو آئی کو خیرباد کہہ کر پی ٹی آئی جوائن کرلی۔ چونکہ سواتی کے پاس پیسہ بہت تھا۔ چنانچہ انہیں نہ صرف ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ بلکہ پارٹی کا نائب صدر بھی بنادیا گیا۔ تیسری بار وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر سینیٹر بنے۔ پی ٹی آئی نے اقتدار میں آنے کے بعد سواتی کو پہلے وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور بنایا۔ پھر وفاقی وزیر ریلوے اور وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے قلمدان سونپ دیے۔
مانسہرہ کی میئر شپ سے لے کر تین بار سینیٹر اور تین بار وفاقی وزیر بننے تک کے بائیس سالہ عروج کا سورج اب غروب ہو رہا ہے۔ اعظم سواتی آج اشتہاری ہیں اور قانون سے چھپتے پھر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی فیملی بیرون ملک منتقل کر دی ہے۔ یوں وہ ’’دیس میں پردیس‘‘ والی صورتحال سے دو چار ہیں۔ ان پر عمر قید جیسی سزائوں کی تلوار لٹکی ہوئی ہے۔
بہت سوں کا خیال ہے کہ ارب پتی اعظم سواتی کے زوال کی ایک وجہ اس مظلوم غریب خاندان کی آہ بھی ہے۔ جسے آج تک انصاف نہیں مل سکا۔ دو ہزار اٹھارہ میں جب اعظم سواتی پی ٹی آئی حکومت میں طاقتور وفاقی وزیر تھے تو اسلام آباد میں ان کے وسیع و عریض فارم ہائوس میں غلطی سے اس غریب گھرانے کی گائے گھس گئی تھی۔ اس بڑے ’’جرم‘‘ پر اعظم سواتی کے بیٹے اور ذاتی محافظوں نے غریب گھرانے پر ہلہ بول دیا اور گھر میں موجود پردہ دار خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ بعد ازاں الٹا غریب خاندان کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا گیا۔ فیملی کے بارہ سالہ بچے اور خواتین سمیت سب کو جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ اس بربریت پر حتیٰ کہ اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان بھی چیخ اٹھے تھے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ ’’جو شخص دو وقت کی روٹی کمانے والے غریب آدمی پر ظلم کرے تو ایسے شخص کی طرف سے ڈیم فنڈ میں دی جانے والی رقم کو بھی قبول نہیں کیا جائے گا‘‘۔ واضح رہے کہ اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار ڈیم فنڈز کے حوالے سے خاصے متحرک تھے۔ حیران کن امر ہے کہ آج انصاف کی دہائی دینے والے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی اس ظلم پر اعظم سواتی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔ یہ مظلوم خاندان آج بھی انصاف کا منتظر ہے۔ دنیاوی قانون تو اسے انصاف فراہم کرنے سے قاصر رہا۔ لیکن قدرت کے اٹل قانون نے اعظم سواتی کو اپنے شکنجے میں لے رکھا ہے۔
انیس سو ترپن میں پیدا ہونے والے ستر سالہ معروف بینک کار اور ماہر مالیات شوکت ترین کا عروج تینتالیس برس پہلے انیس سو پچھتر میں اس وقت شروع ہوا تھا، جب انہوں نے بینکاری کے شعبے میں قدم رکھا۔ وہ گیارہ برس تک سٹی بینک کے مختلف عہدوں پر رہے۔ پھر متحدہ عرب امارات، بحرین اور عمان میں بطور کنزیومر بزنس منیجر کام کرتے رہے۔ بعد ازاں حبیب بینک لمیٹڈ کے صدر بنے۔ دو ہزار آٹھ میں ان کے سیاسی کیریئر کا آغاز ہوا، جب وہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے مشیر برائے خزانہ مقرر ہوئے۔ اگلے برس ہی سینیٹر بن گئے اور ساتھ ہی وفاقی وزیر خزانہ بنا دیئے گئے۔ بعد ازاں انہوں نے پی ٹی آئی جوائن کرلی اور اس کے ٹکٹ پر دو ہزار اکیس میں سینیٹر منتخب ہوگئے۔ تاکہ دوبارہ وزیر خزانہ کا حلف اٹھا سکیں۔ اپنے اس تینتالیس سالہ دور میں شوکت ترین نے بے انتہا عزت و شہرت حاصل کی۔ لیکن پھر ان کے عروج کے سورج کو گہن لگ گیا، جب انہوں نے ایک فرد واحد (عمران خان) کی خوشنودی کے لئے عزت اور شہرت دینے والی ریاست کو کھوکھلا کرنے کی سازش کی۔
یہ سازش اس وقت پکڑی گئی جب ایک آڈیو منظر عام پر آئی۔ جس میں وہ بطور وفاقی وزیر خزانہ، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے وزرائے خزانہ کو آئی ایم ایف کا پروگرام ناکام بنانے کی ہدایات دے رہے ہیں۔ ایف آئی اے اس لیک آڈیو کا فرانزک کراچکی ہے۔ اس کے بعد ہی شوکت ترین پر مقدمہ درج کیا گیا ۔ تاہم گرفتاری سے پہلے ہی وہ بیرون ملک فرار ہوگئے۔ انہیں پاکستان واپس لانے کے لئے انٹرپول سے مدد لی جارہی ہے۔