نائجر کے باغیوں نے علاقائی ممالک کی دھمکیاں مسترد کردیں

نائجر کی حکومت کا تختہ پلٹنے میں میں ملوث فوجی جنرل عبدالرحمان ٹچیانی نے معزول صدر محمد بازوم کی بحالی کے لیے ڈالے گئے دباؤ کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا ہے۔
انہوں نے مغربی افریقی رہنماؤں کی جانب سے عائد پابندیوں کو ”غیر قانونی“ اور ”غیر انسانی“ قرار دیتے ہوئے ان پر تنقید کی اور اپنے ہم وطنوں پر زور دیا کہ وہ قوم کے دفاع کے لیے تیار ہو جائیں۔
مغربی افریقی ریاستوں کی اقتصادی برادری (ECOWAS) کے دفاعی سربراہوں نے ہمسایہ ملک نائجیریا میں نائجر کے بحران پر بات چیت کی۔
علاقائی بلاک نے نائجر پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دی ہیں اور دھمکی دی ہے کہ اگر بازوم کی صدارت 6 اگست تک بحال نہ کی گئی تو طاقت استعمال کی جائے گی۔
ایکو واس نے اقتدار پر قابض فوجیوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے ایک وفد نائجر بھیجا ہے جس کی سربراہی نائجیریا کے سابق رہنما عبدالسلامی ابوبکر کر رہے ہیں۔ تاہم ٹچیانی ڈٹے ہوئے ہیں۔
خود ساختہ ملکی سربراہ عبدالرحمان ٹچیانی نے کہا کہ فوج ’ان پابندیوں کو یکسر مسترد کرتی ہے اور کسی بھی دھمکی کے سامنے جھکنے سے انکار کرتی ہے، چاہے وہ کہیں سے بھی آئیں۔ ہم نائجر کے اندرونی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت سے خبردار کرتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا، ’اس لیے، ہم مجموعی طور پر نائیجر کے عوام اور ان کے اتحاد سے ان تمام لوگوں کو شکست دینے کا مطالبہ کرتے ہیں جو ہماری محنتی آبادیوں کو ناقابل بیان تکلیف پہنچانا چاہتے ہیں اور ہمارے ملک کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔‘
نائجیریا کے دارالحکومت ابوجا میں سیاسی امور، امن اور سلامتی کی تنظیم ECOWAS کے کمشنر عبدالفتاؤ موسیٰ نے بدھ کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ’فوجی آپشن سب سے آخری آپشن ہے، لیکن بلاک کو اس کے لیے تیاری رکھنی ہوگی۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ دکھانا ضروری ہےہ ہم نہ صرف بھونک سکتے ہیں بلکہ کاٹ بھی سکتے ہیں۔
نائجر پر پابندیوں کے ایک حصے کے طور پر نائجیریا نے بدھ کو اپنے پڑوسی کی بجلی بھی منقطع کر دی ہے۔
نائجر دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے اور اپنی توانائی کیلئے 70 فیصد نائجیریا پر منحصر ہے۔
ورلڈ بینک نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ نائجر کو دی جانے والی امداد اگلے نوٹس تک معطل کر رہا ہے۔
اس کشیدگی کے درمیان، امریکا جس کا نائجر میں ایک ڈرون اڈہ اور فوجی ہیں، اس نے اعلان کیا کہ وہ ملک میں اپنے سفارت خانے سے کچھ عملے اور فیملیز کو نکالے گا۔ تاہم، مشن کھلا رہے گا اور سینئر قیادت وہاں کام کرتی رہے گی۔
فرانس، اٹلی اور جرمنی سمیت یورپی ممالک بھی اپنے شہریوں کو نکال رہے ہیں۔
تاہم غیر ملکی افواج کے انخلا کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا ہے۔