اسلام آباد: سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف کیس میں اعتزاز احسن نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ جب پہلے آرمی چیف اپیل سن چکا ہو تو پھر ہائیکورٹ میں جانے کا کیا فائدہ ہوگا،ملٹری کورٹ کے فیصلے کے بعد اپیل سے کچھ نہیں ملے گا۔
نجی ٹی وی کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی،چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی،جسٹس اعجاز االاحسن، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی بنچ میں شامل ہیں، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی بنچ کا حصہ ہیں۔
سینئر وکیل اعتزاز احسن نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ ان کی حکومت 12اگست کو جارہی ہے،اٹارنی جنرل جاتی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے کیسے یقین دہانی کرا سکتے ہیں؟یہ 102افرد کیلئے خصوصی سہولیات دی گئی ہے، یہ کوئی لاڈلے افراد ہیں؟باقی تمام شہریوں کا کیا ہوگا؟
اعتزاز احسن نے کہاکہ نواز شریف نے جب ملٹری کورٹس سیٹ اپ کیے تو آئینی ترامیم کی تھی،جب پہلے آرمی چیف اپیل سن چکا ہو تو پھر ہائیکورٹ میں جانے کا کیا فائدہ ہوگا،ملٹری کورٹ کے فیصلے کے بعد اپیل سے کچھ نہیں ملنا، آرام سے مان جاتے کہ 14مئی کو انتخابات کرادیتے تو آج مردم شماری والے مسائل نہ ہوتے، اسمبلیاں خالی ہیں صدر کا انتخاب نہیں کرا سکتے، حکومت کے اپنے ہاتھ بھی بندھے ہوئے ہیں، ہر چیز میں عدالت میں آنا پڑے گا، مردم شماری کا معاملہ اب آپ کے پاس آنا ہے۔
سینئر وکیل نے کہاکہ وقت تیزی سے چل رہا ہے اور ’’باقی افراد‘‘ کو بھی گھڑی کی ٹک ٹک محسوس ہو رہی ہے،اس عدالت پر بہت بھاری آئینی ذمے داری آن پڑی ہے، آج بھی سماعت کو شام میں مقرر کریں،ججز اپنی چھٹیاں منسوخ کردیں،یہ اسمبلی جاتے جاتے قانون سازی پر قانون سازی کررہی ہے ، ہائیکورٹ میں رٹ پٹیشن کا حق دینا کوئی حیثیت نہیں رکھتا، ہم چلاتے رہے کہ صوبائی انتخاب کراؤ ورنہ آئین کھائی میں گرے گا، ان کو ایک دو گھنٹے ہدایات لینے کو دیں اور کیس کا فیصلہ آج ہی کریں۔