اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی ڈسٹرکٹ جیل اٹک سے اڈیالہ جیل منتقلی کی درخواست پر سماعت ہوئی،چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق کا کہنا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو اڈیالہ جیل کے بجائے ڈسٹرکٹ جیل اٹک بھیجنے کا حکم کس نے دیا۔
پٹیشنر کی جانب سے شیر افضل مروت ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اختیار کیا کہ عدالت نے گزشتہ روز ملاقات کا حکم دیا تھا لیکن عدالتی حکم کے باوجود کل چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ انہوں نے ملاقات نہ کرانے کی کوئی وجہ بتائی؟ جس پر وکیل شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے کہا کہ 6بجے تک ملاقات کا وقت ہوتا ہے، آرڈر لیٹ جاری ہوا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ نعیم حیدر پنجوتھا ایڈووکیٹ کو کل تفتیش کے نام پر 9 گھنٹے ایف آئی اے نے بٹھایا، آج خواجہ حارث کو بھی ایف آئی اے نے طلب کر رکھا ہے، اس طرح سے بٹھانا غیر قانونی حراست میں رکھنا ہے،جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ تفتیش کے نام پر یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کسی کو تنگ کیا جائے، قانون میں قیدی کو جو حق دیا گیا ہے وہ ضرور ملنا چاہیے، ہر کسی کے حقوق ہیں، وکیل سے ملاقات کرانے سے انکار نہیں کیا جا سکتا، آپ صرف یہ خیال رکھیں کہ اس کو سیاسی معاملہ اور وہاں پر رش نہ بنائیں، ایک ایک، دو یا تین وکلا مل کر چلے جائیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد کی اپنی جیل نہیں اس لئے قیدیوں کو اڈیالہ جیل راولپنڈی رکھا جاتا ہے، قیدیوں کو اٹک اور دیگر جیل بھجوانے کا کیا طریقہ ہوتا ہے؟ جس پر شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے کہا کہ حکومت کے پاس پنجاب میں کسی بھی جیل میں شفٹ کرنے کا اختیار ہوتا ہے،چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا نواز شریف نے کوٹ لکھپت جیل جانے کی درخواست دی تھی جو منظور ہوئی تھی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل شیر افضل نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی جیل رولز کے مطابق اے کلاس کی سہولت حاصل کر سکتے ہیں، اٹک کی ڈسٹرکٹ جیل میں اے کلاس نہیں اس لئے وہاں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کو بیرک کے بجائے سیل میں رکھا گیا ہے،شیر افضل ایڈووکیٹ نے کہا کہ رات کو بارش کا پانی بھی اس کمرے میں گیا جہاں چیئرمین پی ٹی آئی کو رکھا گیا، ہو سکتا ہے کہ سکیورٹی کے باعث بیرک میں نا رکھا گیا ہو، چیئرمین پی ٹی آئی کو اڈیالہ جیل میں رکھنے کا کہا گیا تھا مگر اٹک جیل بھجوا دیا گیا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ اڈیالہ جیل کے بجائے ڈسٹرکٹ جیل اٹک بھجوانے کا آرڈر کس نے کیا؟ ٹرائل کورٹ نے سزا دی مگر بطور قیدی حاصل حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا،وکیل شیر افضل ایڈووکیٹ نے کہا کہ صرف جیل میں اے کلاس کے حق سے محروم کرنے کیلئے عمران خان کو اٹک جیل میں رکھا گیا، چیئرمین پی ٹی آئی کو گھر کا کھانا فراہم کرنےکی اجازت دینےکا بھی آرڈر کیا جائے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ قیدی کی جیل منتقلی کا فیصلہ کون کرتا ہے؟ پوچھ کر بتائیں، درخواست گزار چیئرمین پی ٹی آئی نے جیل میں اے کلاس فراہم کرنے، ذاتی معالج ڈاکٹر فیصل سے طبی معائنہ کرانے، لیگل ٹیم، خاندان کے افراد اور پارٹی کی سینئر قیادت سے ملاقات کی اجازت کیلئے درخواست دائر کر رکھی ہے۔
خیال رہے کہ 5 اگست کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد ہمایوں دلاور نے توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کو 3 سال کیلئے نااہل قرار دیتے ہوئے ان پر ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔