کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی تقرری پر برہم ہوگئے، انہوں نے مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کو خط لکھ دیا۔
اختر مینگل نے نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میاں صاحب آپ نے ابھی تک سبق نہیں سیکھا۔
انہوں نے کہا کہ نگراں وزیراعظم کیلیے ایسے شخص کی نامزدگی ہوئی جس سے ہمارے لئے سیاست کے دروازے بند ہو گئے۔ آپ کے اس طرح کے فیصلوں نے ہم اور آپ میں مزید دوریاں پیدا کر دیں۔ آپ کی جماعت مشرف اور باجوہ کی سازش اور غیر آئینی اقدامات کو اتنی جلدی فراموش کر گئی۔
سردار اختر مینگل نے اپنے خط میں لکھا کہ میرا آج کا پیغام گزشتہ پیغام مورخہ 22 جولائی 2022 کا تسلسل ہے کیونکہ جن مسائل کا ذکر میں نے پہلے کیا تھا کاش کہ ان میں کمی آتی لیکن حسب روایت ان میں اضافہ ہوتا گیا۔
انہوں نے خط میں لکھا کہ اس کا الزام کسی پر ڈالنے کے بجائے ہم اپنی شومی قسمت کو ہی ٹھہرائیں تو بہتر ہوگا، وہی بلوچستان وہی جبری گمشدگیاں، سیاسی حل کے بجائے بندوق سے مسئلے کے حل کی کوشش، سیاست دانوں کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کی طرف آس لگانا یا اُن کی مشاورت سے مسئلے کا حل تلاش کرنا۔
سردار اختر مینگل نے لکھا کہ میاں صاحب، ہم پر جو گزری یا گزر رہی ہے وہ ہماری قسمت لیکن حیرانگی اس بات سے ہے جو آپ لوگوں پر گزری اُس سے ابھی تک سبق نہیں سیکھا۔ ہمیں جنرل ایوب سے لیکر جنرل مشرف کے مظالم اچھی طرح یاد ہیں لیکن آپ کی جماعت مشرف اور باجوہ کی سازشوں اور غیر آئینی اقدامات کو اتنی جلدی فراموش کر گئی۔
بی این پی کے رہنما نے اپنے خط میں حالیہ پی ڈی ایم دور میں ہونے والی قانون سازی پر سخت تنقید کی اور کہاکہ یہ آپ حضرات کے خلاف ہی استعمال ہوگی۔
انہوں نے بلوچستان کی صورت حال کے حوالے سے طنز کے نشر چلائے اور لاہور میں گوادر یونیورسٹی کے قیام کا بھی ذکر کیا۔
سردار اختر مینگل نے کہا کہ گزشتہ مردم شماری میں بلوجستان کی آبادی جوکہ تقریباً 2کروڑ 24 لاکھ کے قریب بنتی تھی سی سی آئی کی میٹنگ میں 73 لاکھ کم کرکے کیا پیغام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہاکہ کسی بھی اہم فیصلوں میں اتحادیوں کو اعتماد میں لیے بغیر فیصلے کرنا بداعتمادی ہی کو دوام بخشے گا، بڑے اور چھوٹے صوبوں کے درمیان نفرتوں کی مٹی سے بنائے گئے اُن میناروں کی اونچائی اور مضبوطی میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوسکتا ہے۔
اختر مینگل نے لاپتہ افراد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم پچھلی بار کی طرح اس بار بھی یہ تصور اور خیال کر بیٹھے کہ شاید تلخ تجربات کے بعد آپ کی جماعت کو اب احساس ہوگیا ہوگا لیکن آپ کی جماعت نے ہمیں پہلے بھی غلط ثابت کیا اوراب بھی۔