کراچی (اُمت نیوز) نگران وزیر اعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر آج اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے، گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری ان سے حلف لیں گے۔
حلف برداری کی تقریب آج شام کو گورنر ہاؤس میں ہو گی، گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری کی مصروفیات کے باعث تقریب حلف برداری نگران وزیر اعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر کی نامزدگی کے 2 دن بعد منعقد کی جا رہی ہے۔
نگراں وزیر اعلیٰ جسٹس (ر) مقبول باقر کی حلف برداری تقریب میں شرکت کیلئے صوبے کی اہم شخصیات اور سیاسی رہنماؤں کو مدعو کیا گیا ہے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے جسٹس (ر) مقبول باقر5 اپریل 1957 کو پیدا ہوئے، انہوں نے جامعہ کراچی سے ایل ایل بی کیا اور 1981 میں وکالت کے شعبے سے منسلک ہو گئے، وہ 26 اگست 2003 میں سندھ ہائی کورٹ کے مستقل جج بنے۔
جسٹس (ر) مقبول باقر 20 ستمبر 2013 میں چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ مقرر ہوئے اس کے بعد 17 فروری 2015 کو وہ سپریم کورٹ پاکستان کے جج بن گئے، 4 اپریل 2022 کو سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔
نگران وزیر اعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر پر 2013 میں دہشتگردوں نے حملہ کیا تھا جس میں وہ شدید زخمی ہوئے، حملے میں ان کے سکیورٹی عملے سمیت 9 افراد شہید ہوئے تھے۔
نامزدگی کے بعد گفتگو کرتے ہوئے نگران وزیر اعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر کا کہنا تھا کہ کوشش ہو گی قانون میں رہتے ہوئے صاف و شفاف الیکشن ہوں، کراچی اور سندھ کے مسائل حل کرنے کی خصوصی کاوش ہو گی، محدود وقت اور وسائل میں ریلیف پہنچانے کی کوشش کریں گے۔
نگران وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ عہد کیا ہے کرپشن ترک ہو اور لوگوں کو تنگ نہ کیا جائے، کوشش ہوگی کہ بغیر رشوت دیئے لوگوں کے کام ہو سکیں، میڈیا غیرقانونی کاموں کی نشاندہی کرے روک تھام کریں گے۔
جسٹس (ر) مقبول باقر کا مزید کہنا تھا کہ کوئی ایسے دعوے نہیں کرنا چاہتا جنہیں پورا نہ کرسکوں، قلیل مدت میں محدود وسائل اور اختیارات ہوں گے، بہتری کی کوشش ہو گی، فوکس عوام کے ریلیف پر رکھیں گے۔
انہوں نے کہا تھا کہ بدقسمتی سے اداروں کا استحصال کیا گیا، خاص مقاصد کیلئےاستعمال کیا گیا، اگر اداروں کا فوکس درست کیا جائے تو کیا حاصل نہیں کیا جا سکتا؟ جائیدادوں پر قبضے ہو رہے ہیں، عدالتوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔
نگران وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ قانون کے مطابق کام نہ کیا تو حکومت کا مقصد فوت ہو جائے گا، طویل کابینہ نہیں ہونی چاہیے، لائق، قابل اور دیانتدار لوگ ہونے چاہئیں، دیانتدار لوگوں کا ملنا مشکل ہوتا ہے لیکن معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہیں، کابینہ اراکین غیرجانبدار ہونے چاہئیں، سیاسی پس منظر بھی ہو تو حرج نہیں۔