اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین تحریک انصاف کی آج ہی سزا معطلی کی استدعا مسترد کرتے ہوئے 24 اگست کو دلائل طلب کرلیے، وکیل لطیف کھوسہ نے عمران خان کے سیل میں کیمروں کا معاملہ عدالت میں اٹھادیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے چیئرمین پی ٹی آئی کی توشہ خانہ کیس میں سزا کے خلاف اپیل اور سزا معطلی سمیت جیل میں سہولیات سے متعلق متفرق درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت وکیل شیر افضل مروت نے بتایا کہ اٹک جیل انتظامیہ نے ہماری ملاقات نہیں کرائی۔
عدالتی استفسار پر وکیل بابر اعوان نے بتایا کہ قانون کے مطابق تو ملاقات کی کوئی پابندی نہیں، عدالتی حکم نامہ پر عمل نہیں ہوا۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ایڈیشنل سیشن جج اٹک نے جیل میں دیکھا ہے کہ کیسے سابق وزیر اعظم کو رکھا گیا ہے، بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے، سی سی ٹی سی کیمروں سے پرائیویسی کا خیال نہیں رکھا جارہا ہے، عدالت ہماری سزا معطلی کی درخواست جلد سن کر فیصلہ کرے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے ٹرائل کورٹ کا مصدقہ ریکارڈ موجود نہ ہونے کا موقف اپناتے ہوئے تیاری کے لیے دو ہفتوں کا وقت دینے کی استدعا کی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی وکلا سے ملاقات میں کوئی ممانعت نہیں ہے، ہم نے گزشتہ سماعت پر جیل رولز بھی دیکھے تھے ہم کچھ وقت الیکشن کمیشن کو دے دیتے ہیں لیکن دو ہفتے نہیں دیں گے۔
لطیف کھوسہ نے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ سراسر زیادتی ہو گی، چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا صرف تین سال کی ہے، جیل میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، سزا غیرقانونی ہے۔
بعد ازاں عدالت نے 24 اگست کو سزا معطلی کی درخواست پر دلائل طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔