براڈ شیٹ کمپنی کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل میں کہا کہ پاناما جے آئی ٹی والیم 10 میں ایسا کیا ہے کہ اسے خفیہ رکھا جائے؟ آرٹیکل 19 اے کے تحت عوام کا حق ہے کہ وہ دیکھیں کیسے ملک کو لوٹا گیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے پاناما فیصلے میں والیم دس کے بارے میں کوئی آبزوریشن دی تھی؟ ہم اس طرف نہیں جائیں گے کیونکہ پاناما کیس میں ملک کے منتخب وزیراعظم کو ہٹایا گیا، آپ کو والیم 10 ثالثی کورٹ میں کارروائی کے لیے چاہیے تھا، وہاں معاملہ نمٹ چکا اب تو آپ کی درخواست غیر موثر ہو گئی ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ براڈ شیٹ کو نیب نے 28 ملین ڈالر ادا کر دیے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا اس معاملے پر آپ 184 تین کے تحت ہی درخواست لا سکتے ہیں مگر آپ مسٹر اسٹورٹ کے کندھے پر رکھ کر مفاد عامہ کی بات نہ کریں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل لطیف کھوسہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ پاناما فیصلے پر دوبارہ نظر ثانی کرانا چاہتے ہیں؟ وکیل لطیف کھوسہ بولے نہیں میں پاناما فیصلے میں جانا نہیں چاہتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا سیاسی باتیں کرنے کے بجائے قانونی نکات تک ہی محدود رہیں، آپ یہاں پاکستانی عوام کی نہیں براڈ شیٹ کمپنی کی نمائندگی کیلئے آئے ہیں اس لیے بہتر ہو گا آپ پاکستانی عوام کی نمائندگی میں بات نہ کریں، کیا پانامہ کیس کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے پاناما جے آئی ٹی والیم دس کا ذکر بھی کیا یا پھر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی پاناما بنچ نے کسی کی حمایت کی تھی؟
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا میں صرف چاہتا ہوں کہ عوام کے سامنے حقائق آئیں۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ انگریزی کا لفظ ہے’’ریلکس‘‘، کھوسہ صاحب آپ خاطر جمع رکھیں جو بحث عدالت میں ہو رہی ہے یہ کیس سے ہٹ کر ہے۔
بعد ازاں عدالت نے درخواست واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی۔