اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایل این جی کیس کا ٹرائل وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) عدالت میں فوری روکنے کی استدعا مسترد کردی۔
چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود پر مشتمل دو رکنی بینج نے شاہد خاقان عباسی کے تین شریک ملزمان کی درخواست پر سماعت کی۔
ملزمان کی جانب سے سینئر وکیل احمر بلال صوفی نے عدالت میں پیش ہو کر کہا کہ میرے تین موکل اس کیس میں بے گناہ ہیں، ان پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوا تاہم احتساب عدالت نے تین سال سے زائد عرصے تک کیس زیر التوا رکھا ہے۔
وکیل ملزمان کا کہنا تھا کہ تین سال میں گیارہ گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے، تین سال بعد کیس احتساب عدالت سے اسپیشل جج سینٹرل کو بھیج دیا گیا۔
اس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ عدالتی دائرہ اختیار نہیں بنتا آپ بریت کی درخواست اسپیشل جج سینٹرل کو دیں، اگر وہاں سے کوئی شنوائی نہیں ہوتی تو پھر یہاں دیں۔
وکیل احمر بلال صوفی نے کہا کہ میرے موکل تین سال سے عدالت کا چکر لگا رہے ہیں، انہیں مقدمے سے ڈسچارج کیا جائے اور کیس یہاں زیر سماعت رہنے تک اسپیشل جج سینٹرل کی عدالت میں کارروائی روکی جائے۔
جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ کیس کی کارروائی نہیں روک رہے، پہلے فریقین کو نوٹس کرکے بلا لیتے ہیں۔ عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت آئیندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ ایل این جی ریفرنس میں شاہد خاقان عباسی سمیت 15 ملزمان نامزد تھے جبکہ شاہد خاقان عباسی اور شریک ملزمان نے نیب ترامیم کے تحت عدالتی دائرہ اختیار چیلنج کر رکھا تھا۔ شریک ملزمان میں مفتی اسماعیل،عبداللہ، شیخ عمران الحق، حسین داؤد، عبدالصمد داؤد شامل ہیں۔