اسلام آباد: سپریم کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی نیب ترامیم کیخلاف درخواست پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے ذریعے عدلیہ کی آزادی پر حملہ کیا گیا،اس قانون سازی سے عدلیہ کی آزادی کی بنیادیں ہلا دی گئیں،ہم نےاس لیے حکم امتناع دیا،ہم آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کریں گے۔
دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ میری رائے میں یہ سوال سپریم کورٹ کے 8رکنی بنچ کے سامنے ہے،خواجہ حارث نے کہاکہ سپریم کورٹ کا 5رکنی بنچ فیصلہ دے چکا بنچ تشکیل دینے کااختیار چیف جسٹس کا ہے،مخدوم علی خان نے کہاکہ بعض اوقات 40سماعتوں کے بعد بھی اعتراضات سامنے آتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ نیب ترامیم کا مرکزی ڈھانچہ گزشتہ سال سامنے آیا،گرمیوں کی چھٹیوں کے باوجود یہ بنچ تشکیل دیا گیا،گرمیوں کی چھٹیوں کی وجہ سے بنچ تشکیل دینا کافی مشکل کام ہوتا ہے،ای او بی آئی کیس کی 65سماعتوں کے دوران 6چیف جسٹس اور 7وکلا تبدیل ہوئے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ جیسے نیٹ فلیکس کےسیزنز ہوتے ہیںِ سیزن وی، ٹو، تھری، آپ جس ترمیم کی بات کررہےہیں وہ غالباً سیزن تھری سے متعلق ہے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ہم نے اس کیس میں صرف بنیادی اصولوں کو دیکھنا ہے،ہم 2023کی نیب قانون میں نیب ترامیم کی طرف نہیں جائیں گے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ میں اپنے تھریری موقف کو دوبارہ دہراتا ہوں، چیف جسٹس سے گزارش ہے نیب ترامیم سے پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ دیا جائے،یا پھر سپریم کورٹ نیب ترامیم پر فل کورٹ تشکیل دے،مخدوم علی خان نے کہاکہ ہماری بھی چیف جسٹس سے یہ ہی گزارش ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کے تحریری جواب سے اختیارات کے امین ہونے کا تاثر ملا ہے،چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے خیانت کو اپنے دلائل کا مرکزی نکتہ بنایا ہے،اختیارات کے امین کے تصور پر سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کا فیصلہ موجود ہے،عدالتی فیصلے میں خیانت کا معاملہ آئین کے آرٹیکل 24،9 اور 25 سے جوڑا گیاہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ چیئرمین پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ نیب ترامیم سے کچھ لوگوںں کو خصوصی رعایت دی گئی،چیئرمین پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ نیب ترامیم سے قانون کی کچھ شقیں ہی ختم کردی گئیں،سول سرونٹ سمجھتے ہیں ان کے ہاتھ پاؤں ہی باندھ دیے گئے ہیں،اسی لئے تو سول سرونٹس پھر کمیٹیاں بناتے ہیں معاملات کمیٹی کو بھیج دیتے ہیں۔
مخدوم علی خان نے کہا کوئی ایسا فیصلہ نہیں ملا جس بنیاد پر کالعدم قراردیا گیا ہو کہ اس سے سزا میں کمی کی گئی تھی،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانون میں ترمیم کرنا پارلیمنٹ کا اختیار ہے اس میں امانت کہاں سے آگئی،پارلیمنٹ قانون ختم بھی کر سکتی ہے،مخدوم علی خان نے کہاکہ امریکا کی کچھ ریاستوں میں سزائے موت ختم کی گئی تو اعتراضات ضرور کئے گئے،لیکن یہ نہیں کہا گیا پارلیمنٹ قانون سازی نہیں کر سکتی،سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔