ریفرنس واپسی کی وجوہات سے اندازہ ہوتا ہے قانون کا جھکاؤکس جانب ہے، چیف جسٹس

اسلام آباد(اُمت نیوز)چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے نیب ترامیم کیس میں ریمارکس دیئےکہ ریفرنس واپسی کی وجوہات سے اندازہ ہوتا ہے قانون کا جھکاؤکس جانب ہے۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کررہا ہے،عدالت عظمیٰ کے تین رکن بینچ میں چیف جسٹس کے ساتھ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ شامل ہیں، سماعت کے آغاز پر جسٹس منصور نے پوچھا کہ اٹارنی جنرل کہاں ہیں؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایا کہ اٹارنی جنرل بیرون ملک ہیں ان کا جواب جمع کرادوں گا۔

چیف جسٹس پاکستان نے عمران خان کے وکیل خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے نیب کی رپورٹ پڑھی ہے؟ نیب نے مئی تک واپس ہونے والے ریفرنسز کی وجوہات بتائی ہیں، ریفرنس واپسی کی وجوہات سے اندازہ ہوتا ہے کہ قانون کا جھکاؤکس جانب ہے، مئی تک کن شخصیات کے ریفرنس واپس ہوئے سب ریکارڈ پر آ چکا ہے، نیب قانون کے سیکشن 23 میں ایک ترمیم مئی دوسری جون میں آئی، مئی سے پہلے واپس ہونے والے ریفرنس آج تک نیب کے پاس ہی موجود ہیں، نیب کی جانب سے ان سوالات کے جواب کون دے گا؟ ،ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے اب از خود نوٹس نہیں لیتے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ان ترامیم میں کوئی ایسی شق ہے جس کے تحت مقدمات دوسرے فورمزکو بھجوائے جائیں؟ ان ترامیم کے بعد نیب کا بہت سا کام ختم ہوگیا،خواجہ حارث نے کہا کہ نیب کے پاس مقدمات دوسرے اداروں کوبھجوانے کا بھی کوئی قانونی اختیارنہیں، اس پر جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے کہ ایسا نہیں ہے مقدمات نیب سے ختم ہوکرملزمان گھرچلے جائیں، نیب کے دفتر میں قتل ہوگا توکیا معاملہ متعلقہ فورم پرنہیں جائے گا؟ مقدمات دوسرے فورمزکوبھجوانے کیلئے قانون کی ضرورت نہیں، جو مقدمات بن چکے وہ کسی فورم پر تو جائیں گے۔

جسٹس منصور نے مزید کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججزکو نیب قانون میں استثنیٰ نہیں ہے، آرٹیکل 209 کے تحت صرف جج برطرف ہوسکتا ہے ،ریکوری ممکن نہیں،چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ریاستی اثاثے کرپشن کی نذرہوں، اسمگلنگ یا سرمائے کی غیرقانونی منتقلی ہو،کارروائی ہونی چاہیے، قانون میں ان جرائم کی ٹھوس وضاحت نہ ہونا مایوس کن ہے، عوام کو خوشحال اور محفوظ بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
وکیل وفاقی حکومت مخدوم علی خان نے کہا کہ فوجی افسروں سے متعلق نیب قانون کی توثیق سپریم کورٹ ماضی میں کر چکی ہے،ججز کے حوالے سے نیب قانون مکمل خاموش ہے،ریٹائرڈ ججز کیخلاف شکایات کے ازالے کیلئے کوئی فورم موجود نہیں،ججز ریٹائرمنٹ کے بعد چھ ماہ تک فیصلے تحریر کرتے رہتے ہیں،قانون سازوں نے جن اقدامات کو جرم قرار دیا تھا انہیں اب جرم ختم کر دیا تو کیا ہوا؟ ،قانون سازوں کو عوام کے سامنے جواب دہ ہونے دیں۔