گورنر کے طے کردہ طریقہ کار کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، فائل فوٹو
گورنر کے طے کردہ طریقہ کار کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، فائل فوٹو

لاہور ہائیکورٹ کے 11 ججوں کیلیے بلا سود قرضہ کا تنازع

نواز طاہر:
پنجاب کی نگراں کابینہ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے خزانہ کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کے گیارہ جج صاحبان کیلیے بلا سود قرضوں کی منظوری و اجرا پر ملکی ذرائع ابلاغ ہی نہیں، عالمی سطح پر بھی بحث جاری ہے اور اس اقدام کو عالمی اصولوں کی نفی، عدلیہ کے وقار پر سوالیہ نشان، ججوں کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی، اقربا پروری، اختیارات کے غلط استعمال اور امتیازی سلوک قرار دے کر تنقید کی جارہی ہے۔ جبکہ اس قرض کا اجرا روک کر ایسے عمل سے اجتناب برتنے کے مطالبات بھی سامنے آرہے ہیں۔

واضح رہے کہ اس فیصلے کیخلاف عدالت عالیہ میں ایک شہری مشکور حسین نے اپنے وکیل ندیم سرور ایڈووکیٹ کے ذریعے پٹیشن بھی دائر کردی ہے۔ اس ضمن میں بار کونسل کی جانب سے بھی شدید رد عمل سامنے آیا ہے جس نے اب اس معاملے کو لاہور ہائیکورٹ میں باقاعدہ چیلنج بھی کردیا ہے۔ ممکنہ طور پر کل پیر کے روز، اس ضمن میں دائر کی جانے والی رٹ درخواست پر ابتدائی سماعت کا بھی امکان ہے۔ جبکہ مستقبل میں یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں بھی زیر بحث آنے کا امکان دکھائی دے رہا ہے۔

واضح رہے کہ دنیا بھر میں ریاست کے بنیادی ستونوں عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ کی حدود کا تعین کرتے ہوئے انہیں الگ الگ رکھا جاتا ہے۔ اور عدلیہ کے لئے بنائے گئے ضابطہ اخلاق میں دیانتداری، غیر جانبداری، شفافیت اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کو بنیادی نکات قرادیا جاتا ہے، جن کے تحت منصفین اور خاص طور پر اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان پر اس کا سختی سے اطلاق کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ان کی مراعات کا تعین کرتے وقت بھی انہی امور کو سامنے رکھا جاتا ہے تاکہ وہ معاشی و سماجی امور میں کسی سے مرعوب یا مالی مسائل کا شکار ہوکر انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں کسی لغزش کا شکار نہ ہوں۔ یہی ضابطہ اخلاق پاکستان کی عدلیہ کے لئے بھی موجود ہے۔ لیکن حال ہی میں نگراں صوبائی کابینہ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے خزانہ نے اعلیٰ عدلیہ کے گیارہ جج صاحبان کو بلا سود قرض جاری کرنے کی منظوری دی ہے۔ اس دوران یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ دو جج صاحبان پہلے ہی بلا سود قرض حاصل کرچکے ہیں۔

اس بلا سود قرض پر وکلا تنظیموں میں تو شدید ردِ عمل سامنے آیا ہی۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ عدلیہ کا حصہ رہنے والی شخصیات بھی انگشت بدنداں ہیں اور اسے عوام کا عدلیہ پر اعتماد متزلزل کرنے کی سازش قراردیتی ہیں۔ تاہم وہ میڈیا کے سامنے اس پر گفتگو کرنے سے اجتناب برتتی ہیں۔

’’امت‘‘ سے آف دی ریکارڈ گفتگو کرتے ہوئے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے چار سے پانچ ریٹائرڈ جج صاحبان نے گفتگو کے دوران اس اقدام کو ججز کے منصب کے تقدس اور اس پر اعتماد کے انحطاط کی آخری سطح قرار دیا اور کہا کہ، جب منصفین ہی اس ڈگر پر چل نکلیں گے تو باقی معاشرے میں سماجی برائیوں کی روک تھام کی سوچ ہی دم توڑ دیتی ہے۔ ان سماجی برائیوں میں سب بڑی برائی اپنی قانونی و سماجی حیثیت کا غلط استعمال سر فہرست ہے۔

ایک ریٹائرڈ جج نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ، یہ طرزِ عمل معاشرے میں سب سے بڑا پیغام یہ دے رہا ہے کہ ماہانہ لاکھوں روپے تنخواہ وصول کرنے والا انسان اتنی تنخواہ میں گذارا نہیں کر پارہا اور اپنی حیثیت کا غلط استعمال کرکے گھر بنانے کے لئے قرض لے رہا ہے، تو ایسی ہی حیثیت رکھنے والے باقی لوگ بھی یہ راستہ اپنا سکتے ہیں۔ یوں حیثیت کا یہ استعمال نیچے سفر کرتا ہوا درجہ چہارم کے کم ترین تنخواہ پانے والے ملازم پر بھی جائز قرار پاتا ہے، جس میں مساوی سلوک اور انصاف کا وجود ہی برقرار رکھنا ناقابلِ فہم بن جاتا ہے۔ اور اس سے ریاست کا سارا ڈھانچہ ہی ہِل کر رہ جاتا ہے۔جج صاحبان کے لئے بلاسود قرض کی منظوری کے اقدام کو عدالت عالیہ میں چیلنج کرنے والے شہری مشکور حسین کے وکیل ندیم سرور ایڈووکیٹ کا قانونی موقف بھی یہی ہے۔

ندیم سرور کا ’’امت‘‘ سے گفتگو کے دوران کہنا تھا کہ ’’کابینہ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے لاہور ہائی کورٹ کے جن گیارہ جج صاحبان کو بلا سود قرض جاری کرنے کی منظوری دی ہے، وہ ریاست اور عدلیہ ( جج صاحبان) کا انتہائی غلط اور غیر قانونی اقدام ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ’’میری اطلاعات کے مطابق دو جج صاحبان یہ قرض حاصل کر بھی چکے ہیں۔‘‘ واضح رہے کہ پنجاب کی نگران حکومت نے ہائیکورٹ کے گیارہ جج صاحبان کو چھتیس کروڑ روپے سے زائد بلاسود قرض کی منظوری دی ہے۔ ان جج صاحبان میں مسٹر جسٹس راس الحسن سید، مسٹر جسٹس شکیل احمد، مسٹر جسٹس محمد طارق ندیم، مسٹر جسٹس محمد امجد رفیق، مسٹر جسٹس عابد حسین چٹھہ، مسٹر جسٹس انور الحسن، مسٹر جسٹس علی ضیا باجوہ، مسٹر جسٹس راحیل کامران، مسٹر جسٹس احمد ندیم ارشد، مسٹر جسٹس صفدر سلیم شاہد اور مسٹرجسٹس محمد رضا قریشی شامل ہیں۔ صوبائی کابینہ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے فیصلے کی روشنی میں اس قرض کی وصولی تین سال کی بنیادی تنخواہ (نو لاکھ اٹھائیس ہزار چھ سو باسٹھ روپے ماہانہ) کے برابر ہے۔ یوں بنیادی تنخواہ کے پچیس فیصد کی شرح سے بارہ سال میں قرض وصولی کی جائے گی جو اوسطاً سوا تین کروڑ روپے بنتی ہے۔

یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ان ججز حضرات میں جسٹس انوار الحسن بھی شامل ہیں جنہوں نے شوگر ملز مالکان کی درخواست پر صوبائی انتظامیہ کے چینی کی قیمت کے تعین کے حوالے سے مقدمہ میں حکومت کے خلاف حکم امتناعی جاری کر رکھے ہیں۔ جبکہ مئی کے مہینے میں انہوں چینی کی قیمت اٹھانوے روپے بیاسی پیسے فی کلو گرام مقرر کی تھی اور بتایا تھا کہ چینی کی قیمت مقرر نہ ہونے کی وجہ سے عوام الناس پر پچاس بلین روپے کا اضافی بوجھ پڑتا ہے اور اس کے بعد سیکریٹری خوراک کو نگران حکومت نے دو روز قبل تبدیل بھی کردیا۔

معاصر انگریزی اخبار ’ ڈان‘ کی رپورٹ کے مطابق پنجاب حکومت، علدیہ کو پہلے ہی تین اعشاریہ ایک بلین روپے، یوٹیلٹی بلوں کی مد میں ادا کرتی ہے۔ فارمولے کے مطابق اگر کسی جج کا ایک لاکھ روپے کا بل آتا ہے تو وہ صرف اس کا نصف ادا کرے گا اور باقی رقم ان کے الائونسز کی مد میں ایڈجسٹ کی جائے گی۔

ندیم سرور ایڈووکیٹ کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ ’’ضابطہ اخلاق اور اعلیٰ عدلیہ کے اپنے فیصلوں کے تابع جج صاحبان پر لازم ہے کہ وہ ایسے قدامات، محافل میں شرکت، گفتگو سے اجتناب، حیثیت کے استعمال اور ایسے عمل سے باز رہنے کے پابند ہیں جن سے ان کی دیانتداری، غیر جانبداری اور شفافیت اور ذاتی کردار پر سوال اٹھتا ہو۔ اور وہ اس حیثیت میں کوئی نفع بخش اور غیر مساوی سلوک کے برعکس عمل سے فائدہ اٹھاتے نظر آئیں۔ لیکن موجودہ کیس میں سبھی اصولوں کی نفی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ قرض لینے جج صاحبان کی فہرست میں ایک معزز جج صاحب وہ بھی ہیں، جنہوں نے چینی کی قمیتوں کے تعین کے کیس میں حکم امتناعی جاری کر رکھا ہے۔ بصورتِ دیگر بھی جج صاحبان کے ایسے بے شمار مقدمات ہوتے ہیں جس میں حکومت فریق ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں جج کی دیانتداری ، شفافیت اور غیر جانبداری کیسے برقرار رہتی دکھائی دے گی یا عوام کو ایسے کسی فیصلے پر کیا اعتماد ہوگا؟‘‘

ایک سوال کے جواب میں ندیم سرور ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’’ایک بات واضح ہے کہ اگر جج صاحبان نے درخواست کی ہے، تو ان کی درخواستوں پر غور ہوا ہے۔ ورنہ باقی جج صاحبان کے نام کیوں لسٹ میں شامل نہیں؟ البتہ یہ راستہ کھلا ہے تو کیا معلوم اور کون کون اگلا قدم اٹھائے گا۔ مزید یہ کہ کون سا ایسا غریب بندہ ہے جسے گھر بنانے کیلئے قرض لینے کی ضرورت ہے؟ سبھی صاحبِ حیثیت ہیں۔ میں نے اپنی پٹیشن میں بھی یہی سوال اٹھایا ہے کہ جب مرکزی بینک نے شرح سود بائیس فیصد مقرر کررکھی ہے تو بلا سود قرض کیسے دیے جاسکتے ہیں؟ جبکہ اس انداز کا قرض کسی سرکاری ملازم کو دیئے جانے کی کوئی مثال ہی موجود نہیں کہ اس کی وصولی اس کی پینشن سے کی جائے۔

حالاں کہ ان جج صاحبان میں سے کچھ چھ، نو اور کچھ گیارہ سال کے اندر ریٹائرڈ ہوجائیں گے۔ ریاستی معاملہ تو اپنی جگہ، اصل بات تو جج صاحبان کا اپنا کردار و عمل ہے، جو متنازع ہوگیا ہے کہ وہ ایسا قرض لے رہے ہیں جو کسی اور کو ممکن نہیں۔ اگر میں جج صاحبان کو فریق بناتا تو آئینی و قانونی طور پر رٹ درخواست دائر کرنا اور اس کا سنا جانا ممکن نہیں تھا۔ جج صاحبان کو آئینی تحفظ حاصل ہے اور کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔

اسی لیے کابینہ کمیٹی کو فریق بنایا گیا ہے اور بلا سود قرض کا اجراء روکنے کی استدعا گئی ہے۔ اگلا مرحلہ تو جج صاحبان کا کوڈ آف کنڈکٹ کا ہے جو سپریم جوڈیشل کونسل میں جائے گا کہ انہوں نے کوڈ آف کنڈکٹ کے برعکس اپنی حیثیت سے بنیادی آئینی تقاضے تمام شہریوں سے مساوی سلوک کی نفی کا ارتکاب کیا ہے۔ وہ غیر جانب دا، دیانتدار اور شفاف نہیں رہے۔ یہی موقف پہلے بار کونسل بھی اختیار کرچکی ہے، جس کا کہنا ہے کہ یہ اقدام عدلیہ پر اعتماد ختم کرنے کی کوشش ہے۔‘‘

ادھر پاکستان بار کونسل نے اپنے اعلامیے میں کہا ہے کہ پنجاب کی نگراں حکومت کا یہ عمل غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہے۔ سرکاری خزانے کو بدترین معاشی حالت میں بہت نقصان پہنچا ہے۔ عوامی وسائل سے قرضے کی منظوری کا عمل جائز نہیں۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ غریبوں سے قرضوں پر بیس سے پچیس فیصد وصول کیا جا رہا ہے، جبکہ ججز تنخواہوں اور مراعات کے ساتھ بلا سود قرض لے رہے ہیں۔ ان کیلئے قرضوں کا یہ عمل ضابطہ اخلاق کے خلاف ہے۔ جج صاحبان کیلئے بلا سود قرضوں کا اجرا، امتیازی سلوک اور عدم مساوات ہے۔ لہٰذا صوبائی نگراں حکومت نوٹیفکیشن واپس لے۔ معاشی حالت پہلے سے ہی ابتر ہے اور عوام کو مہنگائی کا سامنا ہے۔

ندیم سرور ایڈووکیٹ کی طرف سے عدالتِ عالیہ میں دائر کی جانے والی درخواست میں چیف سیکرٹری پنجاب اور سیکرٹری فنانس کو فریق بناتے ہوئے درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جج صاحبان کو بلا سود قرضہ فراہم کرنا غیر قانونی اقدام ہے۔ کیونکہ ججز پہلے ہی بے شمار مراعات حاصل کر رہے ہیں۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ عوام کے ٹیکس کا پیسہ نگراں حکومت بے دریغ استعمال نہیں کر سکتی اور نہ ہی من پسندی کرسکتی ہے۔ بلکہ وہ اس پیسے کے جائز اور قانونی استعمال کی پابند ہے۔ اس لئے جج صاحبان کو قرضے دینے کی منظوری کا اقدام کالعدم قراردیا جائے اور جب تک اس مقدمے کا فیصلہ نہیں ہوتا تب تک کمیٹی کے کا فیصلہ معطل کیا جائے۔

عدالتِ عالیہ میں دائر درخواست کے مکمل متن میں اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے ( پی ایل ڈی سنہ انیس سو چورانوے ) کا حوالے دیا گیا ہے، جس کے مطابق ریاست کے تین اعضا یعنی ایگزیکٹو، مقننہ اور عدلیہ، قانون کی کسی شق کی خلاف ورزی نہیں کر یںگے، جس سے عوام الناس کے حقوق متاثر ہوں۔ اخلاقی ذمہ داریاں، ایمانداری، غیر جانبداری اور انصاف پسندی کے بنیادی لوازمات ججوں پر دیگر سے کہیں زیادہ لاگو ہوتے ہیں۔ اور وہ اس کے پابند ہیں کہ نہ صرف برائی یا غلط کام سے گریز کریں، بلکہ شہریوں کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری کی ادائیگی کے دوران بطور جج اور نجی زندگی دونوں میں بھی کسی بھی قسم کی ناانصافی یا شکوک و شبہات سے بھی بچیں گے۔ درخواست کے مطابق ججوں کو گھر خریدنے اور تعمیر کرنے کے لئے بنیادی تنخواہوں کے مساوی سود سے پاک قرض کی جاری کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ جبکہ ان کی ماہانہ تنخواہ نو لاکھ بارہ ہزار آٹھ سو باسٹھ روپے ہے اور دو ججوں کو پہلے ہی قرضہ مل چکا ہے۔ ج

ن ججوں کو قرض دینے کی منظوری دی گئی ہے ان میں جسٹس احمد ندیم ارشد، جسٹس صفدر سلیم شاہد، جسٹس رسال حسن سید، جسٹس شکیل احمد، جسٹس محمد طارق ندیم، جسٹس محمد امجد رفیق، جسٹس عابد حسین چٹھہ، جسٹس انوار الحسن، جسٹس علی ضیاء باجوہ، جسٹس محمد رضا قریشی کو بلا سود قرض دیا جا رہا ہے۔ اور جسٹس راحیل کامران شامل بھی ہیں اور انہیںقرض دینے کے بعد وصولی بنیادی تنخواہ کے پچیس فیصد کی شرح سے ماہانہ بارہ سال میں کی جائے گی۔ جبکہ بعض جج چھ، نو اور گیارہ سال میں ریٹائر ہو جائیں گے۔ رٹ درخواست کے مطابق ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی عام آدمی یا سرکاری ملازم کو ایسا بلاسودقرض جاری کیا جائے جس کی وصولی اس کی پینشن سے کی جائے اور پھر پاکستان کے مرکزی بینک نے شرح سود بھی بائیس فیصد مقرر کررکھی ہو اور جن جج صاحبان کے نام قرض کی فہرست میں شامل ہیں، ان میں سے ایک جج صاحب وہ بھی ہیں جنہوں نے چینی کی فی کلو قیمت کے تعین پر حکم امتناعی جاری کیا تھا۔ حالانکہ متنازعہ چیزوں اور فوائد سے دور رہنا جج کا اولین فرض ہے۔

درخواست کے مطابق ججز بلاسود قرض حاصل کرین گے تو اس کا تاثر یہ ہوگا کہ وہ سیاستدانوں اور اشرافیہ کی طرز پرٖ اپنی حیثیت کو اور طاقت کو ذاتی مفاد اور فوائد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے انتہائی سنگین معاشرتی اثرات مرتب ہوتے ہیں اس سے عوام کا عدلیہ پر سے اعتماد ختم ہو جائے گا اور انہیں متعصب سمجھا جائے گا۔ کیونکہ عدلیہ کے سامنے مقدمات ہمیشہ ایگزیکٹو کے خلاف ہوتے ہیں۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل دو الف اور آرٹیکل پچیس کی خلاف ورزی کے مترادف ہیں، کیونکہ آئین کی ان دفعات میں امتیازی سلوک اور عدم مساوات کی نفی کی گئی ہے ۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ عوام اور یہاں تک کہ غریبوں سے قرضوں پر بائیس فیصد سود وصول کیا جا رہا ہے۔ جبکہ ایک جج جو نو لاکھ روپے سے زائد ماہانہ تنخواہ لے رہا ہے وہ بلا سود قرض لے رہا ہے۔ یہ طرزِ عمل غیر اخلاقی، غیر اخلاقی اور بلا جواز ہے۔ جبکہ عوامی پیسہ سرکاری ملازمین کے ہاتھ میں امانت ہے اور اسے صرف پاکستانی عوام کے ذاتی فائدے کے لیے ہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ججوں اور عوامی ملازمین کے ذاتی فائدے کے لیے استعمال نہیں ہوسکتا۔

اس کے برعکس قانون و اختیارات کا مساوی استعمال ملک کے ہر شہری کا یکساں حق ہے اور آئین کے آرٹیکل پچیس ( دو) میں استعمال ہونے والے لفظ ‘‘ناقابل تسخیر‘‘ کا مطلب ہے کہ اسے کبھی توڑا ا نہیں جائے گا اور اس کی خلاف ورزی بھی نہیں کی جائے گی۔ ریاست کا وفادار رہنا تمام شہریوں کا بنیادی فریضہ ہے اور انہیں آئین اور قانون کا پابند ہونا چاہیے، چاہے وہ کہیں بھی ہوں۔ اس طرح شہریوں پر آئین اور قانون کی پاسداری لازمی ہے۔

آئین اور قانون کی عدم تعمیل ایک شہری کو قانون کے مطابق کارروائی کا ذمہ دار بناتی ہے۔ لیکن ایسے قرض کی منظوری تحفظ کی نفی ہے۔ لہٰذاعدالت عالیہ جج صاحبان کیلئے بلا سود قرضے کی فراہمی کو غیر قانونی اور ججوں کے مساوات کی شق اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی قراردے۔ اور اگر قرض پہلے ہی دیا گیا ہے تو انہیں ہدایت کی جائے کہ سود وصول کیا جائے۔ کیونکہ یہ عوام سے بڑے پیمانے پر وصول کیا جا رہا ہے اور اگر کوئی درخواست کی جائے تو ججوں کو بلا سود قرضہ نہ دیا جائے۔

دوسری جانب ججز کو بلا سود قرضے کے اجرا کا دفاع کرتے ہوئے پنجاب کے نگران وزیر اطلاعات عامر میر نے بذریعہ واٹس ایپ ایک پیغام میں ’’بی بی سی‘‘ کو بتایا کہ، ججز کے لیے گھروں کی تعمیر کے لیے سود سے پاک قرضوں کی منظوری کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایسا ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے۔ یہ وہ 11 جج حضرات ہیں جو قرضے لینے سے رہ گئے تھے۔

لاہور ہائی کورٹ کے باقی تمام ججز ماضی میں گھر بنانے کے لیے مختلف حکومتوں سے سود فری قرض حاصل کر چکے ہیں۔ ان 11 ججوں نے بھی یہی موقف اختیار کیا تھا۔ صوبائی نگران وزیر اطلاعات نے مزید کہا کہ، ججوں کو سود فری قرضے دینے کا ایک بڑا مقصد انھیں کرپشن سے دور رکھنا بھی ہے۔ تاکہ وہ اپنے وسائل سے ہی اپنی سروس کے دوران گھر بنانے کے قابل ہو جائیں۔