اسلام آباد (اُمت نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس کی سماعت اٹک جیل میں کرنے کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کیس کی سماعت اور چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل شیر افضل مروت عدالت کے سامنے پیش ہوئے، وکیل نے وزارت قانون کے نوٹیفکیشن کو عدالت کے سامنے پڑھا۔
وکیل شیر افضل مروت نے دلائل میں کہا کہ وزارت قانون نے کس قانون اور کس اختیار کے تحت عدالت اٹک جیل منتقل کی، اسلام آباد سے ٹرائل کیسے پنجاب میں منتقل ہو سکتا ہے؟ ٹرائل کی دوسرے صوبے منتقلی قانونی طور صرف سپریم کورٹ کر سکتی ہے، چیف کمشنر یا سیکرٹری داخلہ کا اختیار نہیں کہ وہ ٹرائل دوسرے صوبے منتقل کریں۔
وکیل نے دلائل میں کہا کہ اگر ٹرائل تبدیلی کرنی تھی تو ان کو ٹرائل جج سے پوچھنا تھا لیکن نہیں پوچھا گیا، چیئرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل میں رکھنے کی کوئی وجہ نہیں جبکہ انکی توشہ خانہ کیس میں ضمانت ہو چکی ہے لیکن سابق وزیراعظم اس وقت جوڈیشل حراست میں ہیں۔
شیر افضل مروت نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سماعت کا مقام تبدیل کرنے کے پیچھے بدنیتی ہے کیونکہ سماعت کا مقام تبدیل کرنے کے نوٹیفکیشن کا مقصد چیئرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل میں رکھنا تھا اور ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ نوٹیفکیشن کس قانون کے تحت جاری کیا گیا، آفیشل سیکرٹ کے تحت سویلین کا ٹرائل سپیشل کورٹ میں ہوتا ہے۔
اس کے ساتھ جیل ٹرائل اور جج تعیناتی کے خلاف درخواست پر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کے دلائل مکمل ہو گئے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے اپنے دلائل میں کہا کہ جیل ٹرائل سے متعلق نوٹیفکیشن ایک دفعہ کے لیے تھا اور نوٹیفکیشن جب ایک دفعہ کے لیے تھا تو ان کی پٹیشن غیر موثر ہو چکی ہے، رولز آف بزنس میں وزارت قانون کے پاس نوٹیفکیشن جاری کرنے کا اختیار ہے اور وزارت قانون نے صرف این او سی جاری کیا تھا، سائفر کیس میں عدالت کی مقام تبدیلی صرف ایک بار کے لیے تھی۔
عدالت نے وزارت قانون کے نوٹیفکیشن کی وضاحت طلب کر رکھی تھی جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے معلومات لے کر عدالت کو آگاہ کیا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 30 اگست کو سائفر کیس کی سماعت کے لیے عدالت اٹک جیل منتقل کی گئی تھی، یہ نوٹیفکیشن وزارت قانون نے کیا اور اسی کا ہی اختیار تھا، وزارت قانون نے این او سی جاری کیا کہ وینیو تبدیلی پر کوئی اعتراض نہیں۔
منور اقبال دوگل نے کہا کہ اس سے پہلے دو ججز اسی بنیاد پر تعینات ہوتے رہے ہیں، ایڈیشنل سیشن جج فیضان حیدر گیلانی بھی اسی طرح تعینات ہوتے رہے اور جج راجہ جواد عباس کی تعیناتی بھی اسی طرح ہی ہوئی ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ یہ کہا گیا کہ میرا نوٹیفکیشن غیر موثر ہوگیا یہ نہیں کہہ سکتے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ غیر موثر کی حد تک یہ ہے کہ اگر کل دوبارہ آپ کر دیں پھر کیا ہوگا؟ یہ طے تو ہونا ہے کہ نوٹیفکیشن کس اختیار کے تحت کر سکتے ہیں؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کو سائفر عدالت کا اختیار دینا قانون کے مطابق ہے، فرسٹ کلاس مجسٹریٹ یا اس سے اوپر کے کسی بھی جج کو اختیار دیا جا سکتا ہے۔
پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے کہا کہ عدالت کا مقام تبدیل کرنے کی درخواست غیرموثر ہو چکی ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دئیے کہ اگر کل دوبارہ وہی نوٹیفکیشن کر دیا جائے تو یہی سوال متعلقہ ہو جاتا ہے، یہ طے ہونا چاہیے کہ عدالت کا مقام تبدیل کرنے کا اختیار کس کا ہے، درخواست غیرموثر ہونے والی بات سے میں اتفاق نہیں کرتا۔
پراسیکیوٹر ذوالفقار عباس نقوی نے کہا کہ جوڈیشل ریمانڈ کے لیے ملزم کو عدالت کے سامنے پیش کرنا ضروری نہیں البتہ جب جسمانی ریمانڈ ہو تو ملزم کو پیش کیا جانا لازم ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل شیر افضل مروت نے دلائل میں کہا کہ جوڈیشل ریمانڈ میں بھی ملزم کو پیش کرنے سے کوئی استثنیٰ نہیں ہے، اگر پہلا آرڈر بلاجواز اور غیر قانونی تھا تو اس کے نتائج تو ہونگے، ہماری درخواست کے جواب میں یہ کہہ دینا کہ نوٹیفکیشن غیر موثر ہوگیا ہے یہ کافی نہیں، عدالت کے سامنے سوال یہ ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کس قانون کے تحت اٹک جیل میں ہیں؟ اس پر آنکھیں تو بند نہیں کی جا سکتیں۔
شیر افضل مروت نے کہا کہ کسی کے پاس کوئی قانونی جواب ہے؟ کیوں چیئرمین پی ٹی آئی اٹک جیل میں ہیں؟ ایک بار اٹک جیل کا نوٹیفکیشن ہوگیا کل کو لانڈھی جیل کا ہوجائے تو کیا ہم وہاں جائیں گے؟ ہماری ایک اور درخواست پر فیصلہ محفوظ ہے لہٰذا ہماری استدعا ہے کہ محفوظ فیصلہ سنایا جائے، فیصلوں میں تاخیر کی وجہ سے ہم مشکلات کا شکار ہو رہے ہیں۔
بعدازاں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دئیے کہ میں اس پر بھی آرڈر پاس کروں گا اور ساتھ ہی عدالت نے دلائل کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔