اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ 25 ستمبر تک فریق اپنی اضافی گذارشات تحریری طور پر جمع کروا دیں۔
کیس کی سماعت کے دوران وکیل خواجہ طارق رحیم نے عدالت سے التماس کیا کہ مجھے عدالتی سوالات کے جواب کیلئے 2 روز کی مہلت چاہیے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ باقی وکلا بتائیں کتنا وقت لیں گے؟ آئندہ سماعت پر تمام وکلا اسلام آباد میں پیش ہوں۔ چاہتے تھے آج کیس ختم کریں مگر ممکن نہیں ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل سے سوال کیا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ سے آئین کی کیا خلاف ورزی ہوئی؟ قانون کو غیرآئینی کہنا آسان ہے، جج آئین اور قانون کے تحت کام کرنے کا حلف لیتا ہے ۔ میری یا آپ کی رائے کی حیثیت نہیں ہے ۔ بتا دیں کون ساسیکشن کس شق سے متصادم ہے؟ کون سا بنیادی حق متاثر ہوا؟ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی تو بتادیں؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ نے ہمارے حق پر وار کیا ہوتا تو ازخود نوٹس لیتے۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے تابع ہونے کا حلف نہیں اٹھایا ۔ آئین وقانون کے تابع ہونے کا حلف لیاہے ۔ مارشل لا دور میں بھی فیصلے آئے ۔ مارشل لا دور کے فیصلوں کا پابند نہیں ہوں ۔
ان کا کہنا تھا کہ ریکوڈک کیس فیصلے سے ساڑھے چھ ارب ڈالرکا نقصان ہوا ۔ بطور چیف جسٹس مجھے ایسا اختیار نہیں چاہیے ۔ آپ یہ اختیار دینا بھی چاہیں تو نہیں لیں گے ۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کیس کی سماعت کے دوران ذوالفقار بھٹو کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ججز سے غلطیاں ہوئی ہیں اور ہمیں وہ مان لینی چاہیں۔ ہماری انا بہت بڑی بن گئی ۔ ماضی میں ہم نے مارشل لا کی توثیق کی ۔
جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ نے چیف جسٹس کی بادشاہت ختم کی تو اس میں غلط کیا ہے ؟ اپیل کا حق دینے سے کون سابنیادی حق متاثر ہوتا ہے ؟ پارلیمان کو اختیار نہ تھا تو کیا پندرہ غیر منتخب ججوں کو اختیار ہے ؟ ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی آزادی اندرونی بھی ہونی چاہیے ۔ صرف چیف جسٹس کے پاس بینچ بنانے کا اختیار ہونا غلط ہے ۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ باہر کے ممالک میں قرعہ اندازی سے بینچ بنتے ہیں ۔ باہر چیف جسٹس کے پاس بینچ بنانے کے اختیارکا تصورتک نہیں ہے۔ یہ کیا بات ہوئی چیف جسٹس اپنے پاس درخواست رکھے رہے اور بینچ نہ بنائے ۔ یہ قانون تو اختیارات کے استعمال میں شفافیت لا رہا ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے دلائل دیے کہ سپریم کورٹ ایکٹ عوامی خدشات کو دور کرتا ہے ۔ سپریم کورٹ میں عوام کے حقوق کی ہی حفاظت ہے ۔ قانون ایک عہدے کے اختیار سے متعلق ہے ۔ اس سے ادارے میں جمہوری طور پر شفافیت آئے گی ۔ قانون کے خلاف درخواستیں ناقابل سماعت ہیں۔ ایکٹ سے کسی کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہورہی ۔
خیال رہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت آج ہوئی۔ جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الااحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اخیر، جسٹس یحیی افریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی بھی بینچ کا حصہ ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے میں کوئی خلل پیدا نہ ہو اس لئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے، اس کیس میں 9 درخواست گزار تھے، نام بتائیں کس کس نے دلائل دینے ہیں، درخواست گزار خواجہ طارق رحیم کو پہلے سن لیتے ہیں، باقی تمام درخواست گزار بیٹھ جائیں سب کو سنیں گے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی ریمارکس دیئے کہ براہ مہربانی اپنے دلائل کو مختصر رکھیں، ہمیں 50 ہزار زیر التواء مقدمات کو بھی سننا ہے، کچھ ججز نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سن رکھا ہے، فل کورٹ اسی سلسلے میں بلائی کہ تمام ججز سے مشاورت کی جائے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ اس کیس میں فل کورٹ تشکیل دینے کیلئے تین درخواستیں آئی تھیں، فل کورٹ تشکیل دینے کیلئے تینوں درخواستیں قابل سماعت قرار دیتے ہیں۔
سماعت کے آغاز پر وکیل خواجہ طارق رحیم نے چیف جسٹس کیلئے نیک تمناوں کا اظہار کیا اور موقف اپنایا کہ پارلیمنٹ کے پاس سپریم کورٹ رولز بدلنے کا اختیار نہیں، سپریم کورٹ خود اپنے رولز تبدیل کرسکتی ہے۔ چیف جسٹس نے خواجہ طارق کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کے خلاف جو کچھ کہہ رہے ہیں ایسا کچھ آئین میں نہیں لکھا، آپ آئین میں اپنی مرضی سے الفاظ نہ ڈالیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے خواجہ طارق رحیم سے استفسار کیا کہ کیا ماضی میں جو ہوا آپ اس کی حمایت کر رہے ہیں، کیس کے بارے میں اپنی قانونی پوزیشن بتائیں، قانون اور آئین کی بات کریں، اخذ کچھ نہ کریں، سنجیدہ معاملہ ہے۔ چیف جسٹس نے خواجہ طارق رحیم کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو ہر سوال کا جواب دینے کی ضرورت نہیں، اپنے دلائل کی سمری بنا لیں، ججز جو سوال پوچھیں انہیں نوٹ کر لیں۔
وکیل خواجہ طارق رحیم نے قانون پر حکم امتناع دینے سے متعلق حکم نامے کا حوالہ دیا جس پر چیف جسٹس پاکستان نے طارق رحیم کو روکتے ہوئے کہا کہ ماضی کی باتیں نہ کریں۔ جسٹس عائشہ ملک نے سوال اٹھایا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے مطابق 184/3 میں اپیل کا حق دیا گیا ہے، فل کورٹ اگر قانون درست قرار دے تو اپیل کون سنے گا ؟ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ مناسب ہوگا پہلے قانون پڑھ لیں پھر سوالات کے جواب دیں۔
وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ پہلے جسٹس عائشہ ملک کے سوال کا جواب دینا چاہوں گا۔ چیف جسٹس فائز عیسی نے سوال کیا کہ آپ چیلنج کیا گیا قانون پڑھنا چاہتے ہیں یا نہیں ؟ کیا آپ 1980 کے سپریم کورٹ قوانین کو بھی غیر آئینی کہہ رہے ہیں ؟ جس پر وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ نہیں 1980 کے قوانین بھی فل کورٹ نے ہی طے کیے تھے۔
جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کہ ایکٹ کا سیکشن تھری حقیقی معنوں میں عدالتی اختیارات کو محدود کرتا ہے، اصل مسئلہ سیکشن ٹو نہیں تھری ہے، اس پر روشنی ڈالیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے خواجہ طارق رحیم سے سوال کیا کہ آپ کے مطابق چیف جسٹس بنچ بنائے تو ٹھیک اگر چیف جسٹس اور دو سینیئر جج ملکر بنائیں تو غلط ہو گا۔ جس پر وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ کے شیڈول فور کے مطابق سپریم کورٹ اپنے ضوابط خود بناتی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کو یہ اختیار آئین میں دیا گیا یا قانون میں؟ وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ میں سوالات نوٹ کر رہا ہوں جواب بعد میں دوں گا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ خواجہ صاحب آئینی شقوں کو صرف پڑھیں تشریح نہ کریں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ خواجہ صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں قانون بنانا پارلیمان کا دائرہ کار نہیں تھا یا اختیار نہیں تھا ؟ چیف جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ جو ادھر ادھر کی باتیں کر رہے اس پر الگ درخواست لے آئیں، ابھی اپنی موجودہ درخواست پر فوکس کریں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کے اختیارات اور طاقت کا ذکر قانون میں نہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ یہ سوال نوٹ کرلیں، سپریم کورٹ کا اپنا اختیار ہے کہ وہ اپنے اختیارات کو استعمال کرے۔
چیف جسٹس قاضی فائز نے خواجہ طارق رحیم سے استفسار کیا کہ کیا آپ کے مطابق سپریم کورٹ رولز 1980 آئین سے متصادم ہیں، مستقبل کی بات نہ کریں دلائل کو حال تک محدود رکھیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 184/3 جوڈیشل پاور سے متعلق ہے، اس قانون سے عدالت کو اپنے اختیارات استعمال کرنے سے روکنے کی کوشش کی گئی، میرے مطابق پارلیمنٹ عدالتی اختیارات میں مداخلت کر رہی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ خواجہ طارق رحیم صاحب آپ بار بار میں کا لفظ کیوں استعمال کر رہے ہیں، آپ درخواست گزار ہیں اور دیگر لوگ بھی اس کیس میں فریق ہیں، کیا آپ کا اس کیس میں کوئی ذاتی مفاد ہے، خواجہ طارق رحیم صاحب اس کیس میں عدلیہ سے جڑا کونسا عوامی مفاد ہے۔
جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کہ بینچ کی تشکیل سے متعلق کمیٹی بنانے کا قانون کیا جوڈیشل پاور دے رہا ہے یا انتظامی، کیا پارلیمان عدالتی انتظامی اختیارات سے متعلق قانون بناسکتی ہے ؟ کیا پارلیمان نئے اختیارات دیکر سپریم کورٹ کی جوڈیشل پاور کو پس پشت ڈال سکتی ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارلیمان قانون بناتی ہے کیا اس کے اختیار کو محدود کرنا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جہاں رولز بنانے کا اختیار آئین دے کیا پارلیمان ان قواعد میں ترمیم کر سکتی ہے، آپ کوئی کیس لائیں اور چیف جسٹس نہ لگائے مرضی اسکی، میں موجودہ کیس کو نہیں لگاتا میری مرضی تو پھر کیا ہوگا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ اندرونی آزادی کے ساتھ ساتھ احتساب اور شفافیت بھی اہم ہے، عدلیہ کی آزادی کا یہ مطلب نہیں کہ کسی کیس کو دس سال نہ لگاوں، ریکوڈیک کیس کا فیصلہ آچکا ہے تو اس پر میں بات کروں گا، ریکوڈک کیس کا فیصلہ دیا تو 6 بلین ڈالر کا جرمانہ ہوا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کے بعد نظرثانی ختم ہوجائے گی، پانچ رکنی لارجر بنچ کے بعد بھی نظرثانی ہوسکے گی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر فیصلے کے بعد اپیل کا حق دے دیا جائے تو ہر بندہ اٹھ کر آجائے گا۔
وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ مجھے سانس لینے کی مہلت دیں سب سوالات کے جوابات دوں گا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ صدیقی صاحب آپ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ماضی میں جو ہوا اصلاحات ضروری تھی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ صدیقی صاحب آپ سوالات لکھ کہاں رہے ہیں ہم بولی جا رہے ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ میں نے حلف اُٹھایا ہے کہ میں آئین اور قانون کے تابع ہوں میں نے یہ حلف نہیں اٹھایا کہ میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کے تابع ہوں، یہاں کہیں مارشل لاء بھی لگے ہیں میں ان فیصلوں کا تابع نہیں، میرے سامنے وہ فیصلے پڑیں گے تو روک دوں گا، میرے سامنے آئین سے پڑھ کر بتائیں کہ کیا غلط ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ یہ جانتے ہیں کہ یہ قانون بہت اچھا ہے مگر پارلمینٹ یہ نہیں بنا سکتی۔ جس پر وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ جی میں یہی کہہ رہا ہوں، اگر مجھے نہیں بولنے دیا جائے گا اور تضحیک ہوگی تو میں جا رہا ہوں۔
چیف جسٹس نے وکیل امتیاز صدیقی کو ہدایت کی کہ آپ عوام کا خیال کریں۔ جس پر وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ میں عوام کی ہی بات کر رہا ہوں، مجھے بات ہی نہیں کرنے دی جارہی تو میں چلا جاتا ہوں۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی مرضی ہے جانا چاہتے ہیں تو جائیں ورنہ موجودہ کیس تک محدود رہیں۔
جسٹس اعجاز الحسن نے استفسار کیا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ رولز بنانے کا اختیار کس کا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بنچ میں ہمارے رائے مختلف ہوسکتی ہے وہ ہم فیصلوں میں لکھ دیں گے، یہ مناسب نہیں کہ سوالات کی صورت میں ہم اپنی رائے آپ کو دیں۔
وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ آپ کہتے ہیں دلائل دیں جب دلائل دہتا ہوں آپ ٹوک دیتے ہیں، پارلیمنٹ اپنے اندرونی امور پر ہی رولز بناسکتی ہے، ایگزیٹو اور سپریم کورٹ کے رولز کا معاملہ الگ الگ ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سوری میں اس طرح کے دلائل سپریم کورٹ کے سامنے دینے کی توقع نہیں رکھتا۔ وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ آپ اس انداز سے تضحیک کریں گے تو میں نہ نہیں ہونے دونگا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آف پارلیمنٹ غیر آئینی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرٹیکل 141 کے مطابق پارلیمنٹ قانون بناسکتی ہے۔ وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ ہمیں بتائیں کہ کوئی ایسا قانون ہوسکتا ہے جو عدلیہ کو ریگولیٹ کرے۔ جس پر وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ عدالتی دائرہ سماعت اور اختیارات سے متعلق براہ راست کوئی قانون نہیں بنایا جاسکتا، پارلیمنٹ سپلیمنٹری قانون سے صرف عدلیہ کو کسی معاملے پر سفارش کرسکتی ہے۔
وقفہ سماعت کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آئے اور موقف اپنایا کہ یہ درخواستیں ناقابل سماعت ہیں، جہاں تک عدلیہ کی آزادی کا تعلق ہے تو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت عدلیہ گورنر جنرل کی منظوری سے قوانین بناتی تھی، آئین پاکستان 1956 کے تحت عدلیہ کے ضوابط صدر کی منظوری سے مشروط تھے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ یہ قانون عوام کے اہم مسائل حل کرنے کیلئے ہے، قانون کے ذریعے سارے اختیارات اس عدالت کے پاس ہی رکھے گئے ہیں، یہ درست ہے کہ عدلیہ کی آزادی ہر شہری سے متعلق ہے۔
اٹارنی جنرل نے ایکٹ 1935، 1956 اور 1962 کے آئین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 1956 کا آئین سپریم کورٹ رولز کو صدر کی پیشگی اجازت سے مشروط کرتا ہے، 1973 کے آئین میں عدلیہ کو آزاد بنایا گیا ہے، 1973ء کے آئین میں بھی قانون سازوں کو درمیان میں سے ہٹایا نہیں گیا، میں بتاؤں گا کہ ایکٹ آف پارلمینٹ قانون کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ اور قانون ایک ہیں یا نہیں اس کی اہمیت کیا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عوامی مفاد ہر حال میں سپریم رہنا چاہیئے، پارلیمنٹ اگر مفاد عامہ کے برعکس قانون بنائے تو وہ چیلنج ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا بنیادی حقوق یا مفاد عامہ کے معاملے پر پہلے ہائیکورٹس میں نہیں جانا چاہیے تھا ؟ جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا قانون سپریم کورٹ کی پاورز سے متعلق ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے معاملات کو ہائیکورٹ دیکھ سکتی ہے؟۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک اور مقدمے میں کہہ چکا ہوں کہ ہائیکورٹ سپریم کورٹ کے معاملات سے متعلق کیس دیکھ سکتی ہے۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ آپ کی رائے سے متضاد ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ فل کورٹ کے سامنے کیس ہے اس لیے مدعا رکھ رہا ہوں۔ جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ ہم صحیح اور غلط کی بات نہیں کر رہے، کیس قابل سماعت ہونے کے معاملے میں بنیادی حقوق کی نفی یا خلاف ورزی نہیں دیکھ رہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ یہ کیس کسی بھی طرح کے حقوق کی خلاف ورزی کا نہیں ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے کسی کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہو رہی۔
یاد رہے 10 اپریل 2023 کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں اس وقت کے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی طرف سے پیش کیا گیا سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل متفہ رائے سے منظور کیا گیا۔
12 اپریل کو وفاق حکومت کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات سے متعلق منظورہ کردہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا تھا۔
اسی روز سپریم کورٹ میں ایکٹ منظوری کے خلاف 4 درخواستیں دائر کی گئیں، 2 درخواستیں وکلا اور دو شہریوں کی جانب سے دائر کی گئیں، جنہیں 13 اپریل کو سماعت کے لیے مقرر کیا گیا۔
13 اپریل کو سپریم کورٹ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کو کم کرنے سے متعلق ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023‘ پر تاحکم ثانی عملدرآمد روک دیا تھا۔
21 اپریل کو عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 پارلیمنٹ کے بعد صدر سے دوبارہ منظوری کی آئینی مدت گزرنے پر از خود منظور ہوکر قانون کی شکل اختیار کرگیا۔
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ سے جاری بیان کے مطابق مجلس شوریٰ (پارلیمان) کا سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 دستور پاکستان کی دفعہ 75 کی شق 2 کے تحت صدر سے منظور شدہ سمجھا جائے گا۔
سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کا نفاذ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ نے 13 اپریل کو معطل کر دیا تھا۔
واضح رہے ینچز کی تشکیل کے حوالے سے منظور کیے گئے اس قانون میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے سامنے کسی وجہ، معاملہ یا اپیل کو چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا گیا بینچ سنے گا اور اسے نمٹائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔
عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے قانون میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184(3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔
اس حوالے سے کہا گیا کہ اگر کمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ II کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی جس میں کم از کم تین ججز شامل ہوں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان جس میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
آرٹیکل 184(3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کے حق کے بارے میں بل میں کہا گیا کہ بینچ کے حکم کے 30 دن کے اندر اپیل سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے پاس جائے گی، اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔
بل میں قانون کے دیگر پہلوؤں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، اس میں کہا گیا کہ ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ کسی وجہ، اپیل یا معاملے میں جلد سماعت یا عبوری ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔ قانون میں کہا گیا کہ اس کی دفعات کسی بھی دوسرے قانون، قواعد و ضوابط میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود نافذ العمل ہوں گی یا کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گی۔