اسلام آباد : مقتول نور مقدم اور سارہ انعام کے والدین نے چیف جسٹس آف پاکستان سے کیسز کا نوٹس لینے اور انصاف کی جلد فراہمی یقینی بنانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک بگڑے ہوئے بااثر بچے پھانسی کے پھندے تک نہیں جائیں گے، تب تک یہ پیغام نہیں جائے گا کہ وہ قانون سے بالاتر نہیں،جو طاقتور لوگوں کے بچے خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں ان کو یہ پیغام جانا چاہیے کہ قانون سے کوئی بھی بالادست نہیں ہے، ملزمان کو پھانسی پر لٹکانے سے ہی معاشرے میں قانون پر اعتماد بحال ہو گا،معاشرے کو اس کیس سے پیغام جائے گا کہ قانون سے کوئی بالا تر نہیں ہے،والدین سوشل لائف اور کاموں کیساتھ بچوں پر بھی توجہ رکھیں۔ سارہ انعام کے قتل کو ایک سال مکمل ہونے پر مقتولہ کے والدانعام الرحمان، نور مقدم کے والد شوکت مقدم، سارہ انعام کے پھوپھا بریگیڈیئر محمد اسلم، ایئر یونیورسٹی کے ڈین ڈاکٹر ظفر اﷲ قریشی اور سوشل ورکر انجم انور نےانسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیم حقوق العباد کے زیر اہتمام این پی سی میں منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔
ڈاکٹر ظفر اﷲ قریشی کا کہنا تھا کہ سارہ انعام کے والد سے چالیس سال سے دوستی ہے،سارہ انعام انتہائی قابل لڑکی تھی،نور مقدم کے قتل کو دو سال ہو چکے،نور مقدم لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر بات کرنے کی ہمت رکھتی تھی،دونوں بچیوں کے ساتھ اسلام آباد میں بہت ظلم ہوا ،27 ستمبر 2022 کو سارہ انعام کی شادی ہونی تھی،اسکا نکاح پہلے ہو چکا تھا وہ 22 ستمبر کو پاکستان آئیں اور سیدھا چک شہزاد گئیں پھر اس کے بعد یہ سب ہوا جو پورا پاکستان جانتا ہے۔ انہوں نے کہا ہم نے ہمیشہ قانون عدلیہ اور پولیس پر یقین رکھا ججز کو اپیل کرتے ہیں ان کی بھی بیٹیاں ہیں، انصاف فراہم کریں،نور مقدم کا کیس جس رفتار سے چل رہا اسکو دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے۔
پاکستان پیس فار جسٹس کونسل کے وائس چیئرمین بریگیڈیئر(ر)محمد اسلم نے کہا سارہ انعام کے کیس کو ایک سال سے زیادہ ہو چکا مگر کچھ نتائج نہیں ملے،ملزم سامنے ہے اور سارا معاملہ بھی مگر اس کیس کا فیصلہ نہیں ہو سکا۔ نورمقدم کے والد شوکت مقدم نے کہا مجھے یقین نہیں آتا کہ ایک سال ہو گیا ،مجھے اطلاع ملی تو سارہ کے والدین کے گھر دکھ درد بانٹنے گیا،نور مقدم کے کیس میں ایک طویل ٹرائل چلا یہ ایک اوپن اینڈ شٹ کیس تھا۔ہائی کورٹ نے بھی ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار رکھی، اب یہ کیس سپریم کورٹ میں ہے ہم سپریم کورٹ سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس کیس کو جلدی نمٹائیں اور ملزمان کو سزا دیں۔
انہوں نے کہا تمام والدین سوشل لائف اور کاموں کیساتھ بچوں پر بھی توجہ رکھیں۔اس موقع پر شوکت مقدم آبدیدہ ہو گئے۔انعام الرحیم نے کہا کہ ملزم شاہ نواز میر نے انٹرنیٹ پر سارہ کو ڈھونڈا ،شاہ نواز نے مجھے کہا کہ میں آپکا تیسرا بیٹا ہوں، ہم نے یقین کیا، شاہ نواز نے ہماری بیٹی سے لاکھوں درہم بٹورے،پولیس کے افسران نے اس کیس پر بہت اچھے انداز میں کام کیا، نور مقدم کیس کے جج سارہ انعام کیس کے جج تھے،انہوں نے بہت تیزی سے اس پر کام کیا،کیس کے گواہ دو دو تین تین گھنٹے عدالت میں بیٹھے رہتے تھےمگر ملزمان کا وکیل عدالت نہیں آتا تھا۔ اس موقع پر سارہ اور نور مقدم کی یاد میں شمعیں بھی روشن کی گئیں۔