لندن : نگران وزیراعظم انوار الحق نے کہا ہے کہ میری لندن میں کسی سیاسی رہنما یا سیاسی جماعت کے ساتھ کوئی ملاقات ہوئی ہے نہ یہاں آنے کا مقصد سیاسی ملاقاتیں کرنا ہے، میں یہاں حکومتی اور ریاستی امور کو سرانجام دینے کے لیے آیا ہوں۔
لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نگران وزیراعظم نے کہا کہ مجھے اس تجزیے میں کافی حد تک حقیقت کا پہلو نظر آتا ہے کہ 9مئی کو جو کچھ ہوا وہ طے شدہ منصوبہ تھا کہ موجودہ عسکری قیادت پر کیسے سمجھوتہ کیا جا سکتا تھا، آنے والے دنوں میں یہ معاملہ عدالت میں زید سماعت ہو گا تو اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا لیکن میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ یہ ایک منصوبہ بنایا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ خالصتان کے رہنما کا بہیمانہ قتل ہندوتوا کی بیماری کا نتیجہ ہے جو اب خطے سے نکلتی جا رہی ہے، پہلے انہوں نے عیسائی، مسلمان، سکھ، جین سمیت ہر قسم کی اقلیتوں پر حملہ کیا اور انہوں نے ہندوتوا بھی فاشسٹ انداز میں اپنی سوچ کا مظاہرہ کیا جس کے تحت اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد کی جانیں لی گئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اب ہندوتوا کی یہ سوچ مغربی خطوں پر بھی پڑنا شروع ہو گیا ہے جہاں شمالی امریکا، کینیڈا اور یورپ کو بھی خطرہ لاحق ہو گا، پاکستان تو ہمیشہ سے بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا ہمیشہ سے شکار رہا ہے لیکن اب دنیا کو جاگ جانا چاہیے، میرا صوبہ بلوچستان خصوصی طور پر بھارتی ریاستی دہشت گردی کا شکار رہا جس میں ہزاروں لوگ ہلاک ہو چکے ہیں جس کو بھارت کے ٹیکس ادا کرنے والوں کے پیسے سے فنانس کیا گیا اور وہاں دہشت گردی پھیلانے میں ان کی ریاست ملوث ہے۔
انتخابات کے بروقت انعقاد کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمے داری پورا کرے گی اور بہت جلد تاریخ کے بارے میں سن لیں گے اور اس کا اعلان کردیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ میری کسی سیاسی رہنما یا سیاسی جماعت کے ساتھ کوئی ملاقات ہوئی ہے نہ یہاں آنے کا مقصد سیاسی ملاقاتیں کرنا ہے، میں یہاں خصوصی طور پر حکومتی اور ریاستی امور کو سرانجام دینے کے لیے آیا ہوں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا الیکشن پاک فوج کی زیر نگرانی ہوں گے تو انہوں نے بلاتوقف جواب دیا کہ انتخابات الیکشن کمیشن کی زیر نگرانی ہوں گے، اس میں معاونت کے لیے نگران حکومت ہوگی جو ہدایات جاری کرے گی، عسکری، نیم عسکری اداروں سمیت جہاں جہاں جس حکومتی ادارے کی ضرورت ہو گی ہم ان کو ہدایات جاری کریں گے کہ انہیں کہاں معاونت کرنی ہے۔
انہوں نے کہاکہ کیا اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے میں ایک ترجمان ہر اخبار یا چینل کے لیے رکھوں کہ یہ جو کچھ میں نے بین الاقوامی پریس میں کہا ہے اس کی صحیح ترجمانی کرتے ہوئے اس کو چھاپے، بدقسمتی ہے لوگوں کا غلط حوالہ دیا جاتا ہے، گمراہ کیا جاتا ہے، عمران خان انتخابات میں حصہ لے سکیں گے یا نہیں لے سکیں گے تو اگر قانون کسی بھی شخص چاہے وہ کوئی بھی سیاسی رہنما ہو، اس کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دے گا تو وہ حصہ لے گا اور اگر نہیں دے گا تو نہیں لے گا، نگران حکومت کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے۔
9 مئی کے مرکزی ملزم کی اڈیالہ جیل منتقلی اور ممکنہ ڈیل سے متعلق سوال پر نگران وزیراعظم نے کہا کہ کوئی ڈیل نہیں ہے، میڈیا بھوکا ہے اور اس کو اس طرح کا مواد چاہیے ہوتا ہے، اس طرح کی افواہیں اس کا حصہ ہوتی ہیں تو میں اس سے زیادہ اس کو اہمیت نہیں دیتا۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ 9مئی کے واقعات میں عمران خان کو سزا ہو جاتی ہے تو کیا ان کو ایک سابق وزیراعظم کی حیثیت سے سزا ہونی چاہیے تو انوار الحق کاکڑ نے جواب دیا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ان واقعات میں میرا ہاتھ ہو اور میرے اوپر عدالتیں یہ ثابت کریں تو انوار الحق کاکڑ کو بھی سزا ہونی چاہیے، اگر میں اپنی سزا کا حامی ہوں تو کسی اور صاحب کے لیے کیوں نہیں ہوں گا، اگر آپ انارکی کی طرف ریاست کو لے کر جائیں گے تو نہ معاشرہ رہے گا نہ جمہوریت رہے گیم کسی قسم کا نظام حکومت نہیں رہے گا بلکہ ہم انتشار کا شکار ہوں گے۔