نیو یارک (اُمت نیوز)نیو یارک کے ایک جج نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ان کے خلاف دائر مقدمے کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ نے رئیل اسٹیٹ امپائر کی تعمیر کے دوران کئی سالوں تک دھوکہ دہی کی جس کی وجہ سے انہیں شہرت ملی۔
جج آرتھر اینگورن نے پایا کہ ٹرمپ اور ان کی کمپنی کے ایگزیکٹوز بشمول ان کے بیٹے ایرک اور ڈونلڈ جونیئر باقاعدگی سے بینکوں، انشورنس کمپنیوں اور دیگر کو دھوکہ دیتے ہیں۔
ان کا یہ فیصلہ نیو یارک کی اٹارنی جنرل لیٹیٹیا جیمز کی جانب سے دائر کیے گئے ایک مقدمے میں سامنے آیا، مقدمے میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سابق امریکی صدر نے ایک دہائی تک اثاثوں کی مالیت پوشیدہ کی۔
مدعی مقدمہ اور اٹارنی جنرل نیو یارک نے کہا کہ ٹرمپ نے بینکوں اور انشورنس کمپنیوں کو دیے جانے والے سالانہ مالیاتی گوشواروں پر اپنی دولت میں 2.23 ارب ڈالر اور ایک حد تک 3.6 ارب ڈالر کا اضافہ کیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی وکیل کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ ہم فوری طور پر اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔
غیر جیوری ٹرائل اکتوبر کو شروع ہونے والا ہے۔ جیمز نے 250 ملین ڈالر جرمانے اور ٹرمپ کے اپنے آبائی ریاست نیویارک میں کاروبار کرنے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ٹرمپ کے خلاف اس ٹرائل کا آغاز دو اکتوبر سے ہوگا جو دسمبر تک جاری رہنے کا امکان ہے۔
جج آرتھر اینگورن اس سے پہلے بھی ٹرمپ کو سزا دے چکے ہیں۔ 2022 میں سابق صدر کو مقدمے کی ڈیڈ لائن پوری نہ کرنے پر ایک لاکھ 10 ہزار ڈالر جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔
سول کورٹ میں انہیں ہتک عزت کے دوسرے مقدمے کا بھی سامنا ہے جس میں ان پر 1990 کی دہائی میں جنسی زیادتی کا الزام ہے جب کہ ہتک عزت اور جنسی استحصال کے الزام میں ٹرمپ پر پہلے ہی 50 لاکھ ڈالر کا جرمانہ عائد کیا جا چکا ہے۔