اسلام آباد: فیض آباد دھرنا کیس میں وفاقی حکومت،الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی نے بھی نظرثانی درخواست واپس لینے کا فیصلہ کرلیا جس پر چیف جسٹس نے کہا ہے کہ سب لوگ اتنا ڈرے ہوئے کیوں ہیں؟ سزا جزا بعد کی بات اعتراف تو کریں کہ درخواست واپس لینے کا حکم اوپر سے آیا، سچ بولیں ہمارے ساتھ نہ کھیلیں۔
وفاق نے بذریعہ وزارت دفاع فیض آباد دھرنا کیس فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کی تھی جبکہ اس سے قبل آئی بی اور پیمرا بھی اپنی نظرثانی درخواستیں واپس لے چکے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے سامنے فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت شروع ہوئی تو الیکشن کمیشن نے درخواست واپس لینے کا فیصلہ کیا۔ جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ بینچ میں شامل ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آج نو نظر ثانی کی درخواستوں پر سماعت کر رہے ہیں، پہلے سارے درخواست گزاروں کی حاضری لگائیں۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ شیخ رشید احمد نے نیا وکیل مقرر نہیں کیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وکیل مقرر کرنے کی ذمy داری نظر ثانی اپیل دائر کرنے والے پر ہے، سماعت سے پہلے وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ یہ خصوصی بینچ نہیں بلکہ ریگولر بینچ ہے، نظرثانی درخواست چار سال سے سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئی اور ایک جج جسٹس مشیر عالم ریٹائرڈ ہو گئے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاق اس کیس میں دفاع نہیں کرنا چاہتا۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اب کیوں واپس لینا چاہتے ہیں، پہلے کہا گیا فیصلے میں غلطیاں ہیں اس لیے اب واپس لینے کی وجوہات تو بتائیں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ نظر ثانی اپیل جب دائر کی گئی اس وقت حکومت اور تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے تحریری درخواست کیوں دائر نہیں کی، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں اپنا بیان دے رہا ہوں۔
وکیل پیمرا حافظ احسان نے کہا کہ میں بھی اپنی نظر ثانی اپیل واپس لے رہا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کس کی ہدایات پر واپس لے رہے ہیں، یوٹیوب چینلز پر تبصرے کیے جاتے ہیں اور کچھ تو اتھارٹیز ہیں لیکن باتیں ہو رہی ہیں، بیانات دیے جاتے ہیں کہ ہمیں سنا ہی نہیں گیا، ہمیں شرمندہ نہ کریں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو بات کرنا چاہتے ہیں درخواست دائر کریں ہم سنیں گے لیکن زیر سماعت مقدمے پر تبصرے نہیں ہونے چاہئیں، پہلے کوئی خاموش رہتا ہے لیکن بعد میں کہتا ہے مجھے سنا نہیں گیا، میں کسی کا نام نہیں لے رہا، کہا گیا کہ اگر مجھے سنا جاتا تو میں یہ کہتا۔
پیمرا کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ اداروں کو تباہ نا کریں اور عوامی اداروں کے بارے میں ایسا نا کریں، یہ حکم نہیں بلکہ درخواست ہے، اگر کسی نے کوئی بات کرنی ہے تو تحریری صورت میں کرے۔
وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے کہا کہ پی ٹی آئی فیض آباد دھرنا کیس فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست واپس لینا چاہتی ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل پی ٹی آئی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میں تیسری مرتبہ شرعی اصول کے تحت پوچھ رہا ہوں، کیا آپ واقعی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میں ہدایات کی روشنی میں کہہ رہا ہوں کہ ہم دفاع نہیں کرنا چاہتے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ اچھی شہرت کے وکیل ہیں اور ہمیں آپ پر یقین ہے، عرفان قادر صاحب کو نوٹس کر دیے ہیں، کہیں ایسا نا ہو عرفان قادر صاحب بھی تقریر کر دیں مجھے سنا نہیں گیا۔
وکیل اعجازالحق نے کہا کہ ہمارا اس دھرنے سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے رپورٹ کی روشنی میں آبزرویشن دی تھی۔
چیف جسٹس نے وکیل اعجاز الحق سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ تحریری طور پر لکھ کر دیں کہ آپ نے فیض آباد دھرنے کو سپورٹ نہیں کیا۔
وکیل اعجاز الحق نے کہا کہ اعجاز الحق کے حوالے سے جو آبزرویشنز دی گئیں وہ درست نہیں ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو اعتراض فیصلے پر نہیں بلکہ رپورٹ پر ہے، ہم نے فیصلے میں اعجاز الحق کا ذکر آئی ایس آئی رپورٹ کی روشنی میں کیا، آپ بیان حلفی دیں رپورٹ غلط تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کا بہت بڑا اسٹیٹس ہے، آپ نے ایک قانون کے بارے میں کہا تھا یہ مصنوعی قانون ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ اب طویل وقت گزر چکا ہے، اب حکومت اور الیکشن کمیشن کافی دانشمند ہو گئے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے نظرثانی درخواست پہلے فکس کرنے کی بات کیوں نہیں کی، درخواستیں واپس کیوں لی جا رہی ہیں، ہمیں بتائیں، سچ بولنے سے ہر کوئی کترا کیوں رہا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ فیض آباد دھرنا لینڈ مارک فیصلہ ہے، اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے ہوئے پوچھا کہ بتائیں فیصلے پر کیا عمل ہوا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے دھرنا فیصلے میں پوری داستان لکھی تھی۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ چیف جسٹس خود اپنے ادارے کو بھی دیکھیں کہ نظر ثانی اتنا عرصہ کیوں فکس نا ہوئی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم خود احتسابی کا سلسلہ اپنے سے شروع کرنا چاہتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ایک آئینی ادارہ اتنا ہچکچاہٹ کا شکار کیوں ہے، کیا یہ کہہ رہے ہیں مٹی پاو بعد میں دیکھیں گے، 12مئی کو 55 لوگ مرے، خون ہوا اور آپ کہہ رہے ہیں مٹی پاؤ۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بتائیں نا کیوں مٹی ڈالیں؟ کیا نئے واقعے کا انتظار کریں؟۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ خود بھی قابل احتساب ہے اور ہم عوام کے سامنے جواب دہ ہیں، الیکشن کمیشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے، آپ کہہ رہے ہیں حکم آیا تھا ہم نے نظر ثانی دائر کر دی، لکھیں کس نے حکم کیا تھا۔ وفاقی حکومت بتائے درخواستیں واپس کر دیں لیکن عمل درآمد کیا ہوگا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے مرحوم خادم رضوی نے فیصلے کو قبول کرلیا، غلطیاں سب سے ہوتی ہیں لیکن بڑا وہ ہے جو غلطیوں کو تسلیم کرے، غلطی مجھ سے بھی ہوسکتی ہے مگر پیمرا اور الیکشن کمیشن کیوں اَپ سیٹ ہے، کیا الیکشن کمیشن نے آزادانہ نظر ثانی دائر کی یا کسی کے کہنے پر دائر کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستان میں حکم اوپر سے آتا ہے اور اوپر سے حکم آنے کا مطلب نعوذباللہ ۔۔۔ اللہ نہیں ہے، اوپر سے حکم آنے کا مطلب کہیں اور سے آیا ہے، کیا الیکشن کمیشن نے کبھی حکم پر نظر ثانی دائر کی تھی، مومن کبھی جھوٹا نہیں ہوسکتا، سزا جزا تو بعد کی بات ہے، کم ازکم اعتراف تو کرلیں حکم اوپر سے آیا ہے اس لیے درخواست واپس لے رہے ہیں۔ کم ازکم سچ تو بول دیں، ہمارے ساتھ کھیل نا کھیلیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کے وکیل بتائیں کہ کس سے ڈر رہے ہیں، ٹی وی پر تقریریں کرنا تو آسان ہے لیکن یہاں تو بتائیں کس کا حکم تھا، آج فیصلہ درست مان رہے ہیں لیکن نظر ثانی درخواستیں کیوں دائر کی گئیں، توقع تھی ایک نظر ثانی درخواست آئے گی لیکن تین آگئیں، وہ صاحب کدھر ہیں جو کینیڈا سے جمہوریت کے لیے آئے تھے، ایک صاحب کے بارے میں زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہوسکتا ہے مقدمات ہمارے سامنے آجائیں، وکیل تو بڑے باہمت ہوتے ہیں سچ ہی بول دیں، آپ کہہ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کیا، بتائیں فنڈز کے ذرائع بارے آپ نے کیا عمل کیا، ہم جواب دیں گے، آپ نے پاکستان کے قانون کو کاسمیٹک کہا، سیاسی جماعتوں کے ذرائع آمدن کے بارے میں کیا عملدرآمد ہوا تفصیلات دیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم تحریری جواب دیں گے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا دھرنا مظاہرین کے درمیان کوئی معاہدہ ہوا تھا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی بالکل معاہدہ ہوا تھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وہ معاہدہ ابھی ہے کہ نہیں؟ کیا دھرنا معاہدہ ریکارڈ کا حصہ ہے؟ فیض آباد دھرنے کا معاہدہ ریکارڈ پر لے کر آئیں، پیمرا نے ہمارے احکامات پر کس حد تک عملدرآمد کیا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ ہرجگہ کیوں کنٹینر لگائے جاتے ہیں؟ جنگی قیدیوں کا 80-80سال بعد بھی ٹرائل ہوتا ہے ایسی ہوتی ہیں زندہ قومیں ہماری طرح نہیں ہوتا کہ بس جو ہوگیا سو ہوگیا ایسا نہیں ہوتا آگے بڑھیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ججز کے خلاف شکایات ہم سنتے ہیں ہم نے کسی سے اتھارٹی لی نہیں کل اگر کوئی ہمارے پاس آگیا کہ ایکشن لیں تو پھر کیا ہوگا؟ بہتر ہے خود ایکشن لیں ہم ریاستی اداروں کو مستحکم کررہے ہیں انہیں نیچا نہیں دکھا رہے ہمارا فیصلہ اس دورانیے کیلئے تھا ہم بہت کچھ لکھ سکتے تھے ہم نے فیصلے میں وہ لکھا جو ہمارے سامنے حقائق تھے، احتساب کے بغیر ملک کا مستقبل روشن نہیں ہوسکتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک صحافی کو ہراساں کرنے کی تصویر چھپی اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سچ کی تلاش کا کمیشن تو بنا نہیں ہمیں ہمارا مواخذہ کرنا چاہیے، آج سب نے تسلیم کیا ہمارا فیصلہ سچا تھا، اب آپ پر منحصر ہے سچ کا ساتھ دینا ہے یا نہیں۔
دوران سماعت نظرثانی اپیلوں پر عدالت نے کہا کہ وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ ہم نظرثانی درخواست واپس لے رہے ہیں، آئی بی اور پیمرا نے بھی نظر ثانی واپس لینے کی درخواست کی ہے اور پی ٹی آئی نے بھی نظر ثانی واپس لینے کی درخواست کی ہے۔
عدالت نے کہا کہ شیخ رشید کو نیا وکیل کرنے یا خود دلائل دینے کی اجازت دی جاتی ہے، ایم کیو ایم کو بھی نیا وکیل کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں، اعجاز الحق نے اپنی حد تک عدالتی آبزرویشنز حذف کرنے کی استدعا کی، اعجاز الحق کے وکیل نے تحریری بیان حلفی جمع کرانے کی مہلت مانگی، الیکشن کمیشن کے وکیل نے بھی نظرثانی واپس لینے کی استدعا کی۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ کچھ فریقین عدالت میں موجود نہیں لیکن ہم تمام فریقین کو ایک اور موقع فراہم کرتے ہیں، اٹارنی جنرل عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کے بارے میں رپورٹ دیں، کوئی بھی فریق یا فرد تحریری جواب جمع کروانا چاہے تو 27 اکتوبر تک جمع کروا سکتا ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے وجہ بتادی کہ فیض آباد دھرنا کیس کی لائیو سماعت کیوں نہ نشر ہوئی، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم لائیو اسٹریمنگ کے لیے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کو ایک پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر چلا رہے ہیں، لائیو اسٹریمنگ کے حوالے سے دو رکنی کمیٹی بنائی ہے جو اس وقت کام کرہی ہے، کمیٹی کی گزارشات کے بعد اس معاملے کو دیکھیں گے۔بعدازاں چیف جسٹس نے کیس کی سماعت یکم نومبر تک ملتوی کردی۔