پاکستان سمیت خطے میں زلزلے کا خدشہ، ڈچ سائنسدان کی پیشگوئی

ایمسٹرڈیم: ترکیہ کے زلزلے کی پیشگوئی کرنے والے سائنسدان نے خطرے کی گھنٹی بجا تے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ چند روز کے اندر اندر پاکستان میں انتہائی خوفناک زلزلہ آ سکتا ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق اس سائنسدان کا نام فرینک ہوگر بیٹس ہے جنہوں نے اس سے قبل ترکیہ میں آنے والے خوفناک زلزلے کی پیشگوئی کی تھی۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان میں اگلے اڑھتالیس گھنٹے انتہائی اہم ہیں۔ اس دوران پاکستا ن میں انتہائی شدت کا زلزلہ آنے کا خطرہ ہے۔

ڈچ تحقیق کارنے پاکستان سے متعلق پیش گوئی کرتے ہوئے الٹی میٹم جاری کیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان میں آئندہ 48 گھنٹوں میں طاقتور زلزلہ آ سکتا ہے جس کی شدت 6 یا اس سے زائد ہو سکتی ہے۔

چمن فالٹ لائن کوزلزلہ پیما مرکز ریسرچ انسٹیٹیوٹ سولر سسٹم جیومیٹری سروے کی جانب سے انتہائی طاقتور زلزلے کا علاقہ قرار دیا گیا ہے۔اس مرکز کے مطابق سطح ِ سمندر کے نزدیک برقی چارجز کے اتار چڑھاؤ کی اطلاعات ہیں،اس وجہ سے پاکستان کے صوبے بلوچستان میں انتہائی خطرناک زلزلہ آنے کا قوی امکان ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ صوبہ بلوچستان میں چمن فالٹ لائن میں انتہائی تیز لرزش ریکارڈ کی گئی، جس کی وجہ سے اس علاقے میں اگلے 2 دنوں 6 شدت تک کا زلزلہ آ سکتا ہے۔واضح رہے کہ اسی سائنسدان نے 3 فروری 2023ء کو اپنے ایک بیان میں بتایا تھا کہ لبنان، شام، اردن اور ترکیہ میں  سات اعشاریہ شدت کا زلزلہ آئے گا۔ ان کی یہ پیشگوئی صرف 3 دن بعد ہی سچ ثابت ہوگئی تھی۔ 6 فروری 2023ء کو شام اور ترکیہ میں ہولناک زلزلہ آیا تھا،اس قدرتی آفت نے فلک بوس عمارتوں کو ملیا میٹ کرکے رکھ دیا تھا جبکہ ہزاروں افراد لقمۂ اجل بن گئے تھے۔

خیال رہے کہ جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی فالٹ لائن کا نام “چمن فالٹ لائن” ہے۔ اس افغانستان کا بھی ایریا بھی آتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ یہ فالٹ لائن تقریباً 900 کلومیٹر طویل ہے۔ اسی فالٹ لائن پر مئی 1935ء میں زلزلہ آیا تھا جس کی وجہ سے ہزاروں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

دوسری جانب محکمہ موسمیات پاکستان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ زلزلہ پیما سینٹرز نے چمن فالٹ لائن میں کوئی غیرمعمولی حرکت نہیں دیکھی۔ 5سے 6 س سٹیشن جدید آلات کی مدد سے مسلسل نگرانی کر رہے ہیں تاکہ کسی بھی ناگہانی صورتحال کی پیشگی اطلاع مل سکے۔ دنیا میںزلزلے کے امکانات ہمیشہ موجود رہتے ہیں مگر یہ کب اور کہاں آئیں گے، جدید ترین ٹیکنالوجی بھی اس بارے میں نہیں بتا سکتی۔