ارشاد کھوکھر:
نئی مردم شماری کے اعداد و شمار کی بنیاد پر الیکشن کمیشن نے خصوصاً قومی اسمبلی کی نشستوں کیلئے جو مجوزہ حلقہ بندیاں کی ہیں۔ اس پر ملک بھر میں اعتراضات کا ریکارڈ ٹوٹ سکتا ہے۔ حلقہ بندیوں کے حوالے سے بلوچستان میں اوورلیپ کرنا الیکشن کمیشن کی مجبوری ہے۔ لیکن سندھ اور کے پی کے میں بھی اسی طرز پر ایک سے زائد اضلاع کی حدود پر مشتمل حلقہ بندیاں کرنے پر مختلف جماعتوں کے شدید اعتراضات سامنے آرہے ہیں۔ خصوصاً سندھ میں حلقہ بندیوں پر سب سے کم اعتراضات پیپلز پارٹی کی جانب سے آسکتے ہیں۔ تاہم سب سے زیادہ اعتراضات جی ڈی اے اور متحدہ پاکستان کی جانب سے آنے کے امکانات ہیں۔
اسی طرح کے پی کے میں اے این پی کی قیادت بھی شدید تحفظات کا اظہار کر رہی ہے۔ اس حوالے سے پہلے والا مروجہ فارمولا تبدیل کرنے کی وجہ سے شکار پور کے بجائے سانگھڑ میں قومی اسمبلی کا بھی ایک حلقہ کم ہو رہا ہے۔ جس سے پیپلز پارٹی کی قیادت خوش اور جے ڈی اے کی قیادت ناراض دکھائی دے رہی ہے۔ اسی فارمولے کے باعث کے پی کے کا ضلع پشاور بھی متاثر ہو رہا ہے۔ سندھ کے تیس میں سے بیس اضلاع میں 2018ء کے مقابلے میں صوبائی و قومی اسمبلی کے حلقوں کی تعداد میں کوئی کمی بیشی نہیں ہورہی۔ حلقہ بندیوں پر اعتراضات بڑھنے کے باعث عام انتخابات میں مزید تاخیر کا خدشہ بھی بڑھ رہا ہے۔
پی ڈی ایم اے کی حکومت نے اپنے آخری ایام کے دوران تنازعات سے بھرپور ڈیجیٹل مردم شماری کی منظوری دینے کے بعد فیصلہ کیا تھا کہ نئی مردم شماری کی بنیاد پر چاروں صوبوں میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد وہی رہے گی جو 2018ء میں تھی۔ تاہم صوبوں کے اندر نئی مردم شماری کے اعدادوشمار کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبائی و قومی اسمبلیوں کی نئی حلقہ بندیاں کی جائیں گی۔
اس سلسلے میں الیکشن کمیشن نے مجوزہ نئی حلقہ بندیوں کی فہرست آویزاں کردی ہے۔ جس پر 27 اکتوبر تک اعتراضات طلب کیے گئے ہیں۔ اعتراضات درج کرنے کی مدت کے خاتمے کے بعد ان اعتراضات کو نمٹانے کیلئے الیکشن ٹریبونل قائم کئے جائیں گے۔ جس کیلئے ایک ماہ کی مدت ہوگی۔ الیکشن کمیشن نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ 30 نومبر 2023ء حلقہ بندیوں کو نئی شکل دی جائے گی۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو سندھ میں قومی اسمبلی کے 61 حلقے ہیں۔ اوسطاً فی حلقہ 9 لاکھ 13 ہزار سے زائد آبادی پر بن رہا ہے۔
اس حوالے سے سندھ میں مروجہ فارمولا یہ دیکھا گیا ہے کہ جو بھی حلقہ بندی ہوتی ہے۔ وہ متعلقہ ضلع کی حدود کے اندر ہی ہوتی ہے۔ اس میں کسی اور ضلع کی حدود کو شامل نہیں کیا جاتا۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو کراچی ڈویژن کے 7 اضلاع میں سے 4 اضلاع میں چار نشستیں 2018ء کے مقابلے میں بڑھ رہی ہیں۔ جن میں سے ضلع ملیر، ضلع وسطی اور ضلع شرقی میں صوبائی اسمبلی کا ایک ایک حلقہ اور ضلع جنوبی میں قومی اسمبلی کا ایک حلقہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اسی طرح ضلع سانگھڑ، ٹھٹھہ اور ضلع خیرپور میں صوبائی اسمبلی کا ایک ایک حلقہ پہلے کے مقابلے میں کم ہو رہا ہے۔ جس پر سیاسی جماعتوں کو کوئی خاص اعتراض نہیں۔
اسی فارمولے کے تحت اگر دیکھا جائے تو کراچی کے ضلع جنوبی میں جو ایک قومی اسمبلی کا حلقہ بڑھ رہا ہے۔ وہ حلقہ ضلع شکارپور میں کم ہو رہا ہے۔ لیکن الیکشن کمیشن نے جو حلقہ بندیاں کی ہیں۔ اس میں ضلع کشمور، ضلع جیکب آباد اور ضلع شکارپور کی حدود کو ایک دوسرے میں شامل کر کے ان اضلاع میں چار حلقے بنائے ہیں۔ اس طرح ضلع شکارپور اور ضلع کشمور کی حدود پر مشتمل ایک قومی اسمبلی کا حلقہ بنانے کے باعث ضلع شکارپور میں پھر سے قومی اسمبلی کی دو حلقوں کی گنجائش پیدا ہو رہی ہے۔ اور اس کے مقابلے میں جو کراچی میں قومی اسمبلی کا ایک حلقہ بڑھ رہا ہے۔ وہ حلقہ ضلع سانگھڑ سے کم ہو رہا ہے۔ جس پر جی ڈی اے کی قیادت کو شدید تحفظات ہیں۔ کیونکہ ضلع سانگھڑ میں جے ڈی اے خصوصاً فنکشنل لیگ کا سیاسی اثر رسوخ زیادہ رہا ہے۔ جس کا اس بات سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مذکورہ ضلع میں قومی اسمبلی کا اوسطاً فی حلقہ تقریباً ساڑھے 11 لاکھ آبادی پر بن رہا ہے۔
ایک حلقہ بڑھانے کیلیے ضلع شکارپور، کشمور میں جو فارمولہ اپنایا گیا ہے۔ اس کے متعلق فنکشنل لیگ کی قیادت کا یہ بھی موقف ہے کہ اگر ایسے ہی ضلع سانگھڑ کی تحصیل کھپرو سے ملحقہ ضلع عمر کوٹ کی تحصیل پتھورو کے علاقے کو سانگھڑ میں شامل کیا جائے تو ضلع سانگھڑ میں بھی پہلے کی طرح قومی اسمبلی کے تین حلقے بحال رہیں گے۔
ذرائع نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے خصوصاً سندھ میں مذکورہ اضلاع میں جو حلقہ بندیاں کی ہیں۔ اس سے پیپلز پارٹی کی قیادت خوش ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ موقف اختیار کیا جارہا ہے کہ صرف سندھ میں نہیں بلکہ دیگر صوبوں میں بھی ایسا کیا گیا ہے۔ تاکہ کسی حلقے میں آبادی بہت زیادہ اور کسی حلقے میں آبادی زیادہ کم نہ ہو۔
ذرائع نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کے مذکورہ موقف کی جہاں تک بات ہے، تو ضلع بلوچستان میں شروع سے لے کر مختلف اضلاع پر مشتمل ایک حلقہ بنتا رہا ہے۔ کیونکہ ضلع بلوچستان کے کئی اضلاع ایسے ہیں۔ جن کی آبادی ایک سے دو لاکھ تک ہی ہے۔ جہاں پر اوورلیپ کرنا الیکشن کمیشن کی یقینا مجبوری ہے۔ لیکن سندھ میں ایسی روایت نہیں رہی۔ کراچی میں جو حلقہ بندیاں کی گئی ہیں۔ اس پر متحدہ کی قیادت کو بھی شدید تحفظات ہیں۔ کراچی کے ضلع جنوبی میں قومی اسمبلی کا جو ایک حلقہ بڑھ رہا ہے۔ وہ عین مروجہ فارمولے کے تحت ہے۔ تاہم یہ بات ضرور ہے کہ کراچی کے ضلع کورنگی میں قومی اسمبلی کا حلقہ 10 لاکھ 14 ہزار سے 10 لاکھ 83 ہزار تک بن رہا ہے۔
جبکہ ضلع جنوبی میں قومی اسمبلی کا فی حلقہ 7 لاکھ 61 ہزار سے 7لاکھ 83 ہزار تک بن رہا ہے۔ کراچی میں بھی اگر شکارپور اور کشمور والے فارمولے سے کام لیا جائے تو ضلع جنوبی اور ضلع کورنگی یا ضلع شرقی کی حدود پر مشتمل بھی ایک حلقہ بن سکتا ہے۔ اسی طرح ضلع ٹھٹھہ میں صوبائی اسمبلی کا جو ایک حلقہ کم ہو رہا ہے۔ اس کیلئے ضلع ملیر کے کچھ علاقے اگر شامل کیے جائیں تو ضلع ٹھٹھہ کم ملیر پر مشتمل بھی ایک صوبائی حلقہ بن سکتا ہے۔ اس نوعیت کے کئی اور اعتراضات بھی ہیں۔
سندھ کے تیس میں سے بیس اضلاع میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں 2018ء کے مقابلے میں کوئی کمی بیشی نہیں ہورہی۔ اس صورتحال میں یہ بات عیاں ہے کہ اس مرتبہ حلقہ بندیوں پر اتنے زیادہ اعتراضات ہو سکتے ہیں کہ جس سے حلقہ بندیوں پر پہلے ہونے والے اعتراضات کا ریکارڈ ٹوٹ سکتا ہے اور اعتراضات زیادہ ہونے کے باعث انہیں نمٹانے کیلئے الیکشن کمیشن کو ایک ماہ سے زیادہ مدت کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ دیگر وجوہات کی طرح حلقہ بندیوں کے بروقت مکمل نہ ہونے کے باعث بھی عام انتخابات مزید تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں۔