عمران خان:
ملک بھر میں اسمگل شدہ لگژری نان کسٹم پیڈ گاڑیاں چلانے والے ریاست کے ریڈار پر آگئے۔ بااثر طبقے سے لاکھوں گاڑیوں پر 25 ارب روپے ریکوری کی حکمت عملی تیارکرلی گئی۔ اسمگل شدہ گاڑیوں کو 2 قسم کی درجہ بندیوں میں تقسیم کرکے آپریشن کیلئے ڈائریکٹوریٹ جنرل کسٹمز انٹیلی جنس اور کسٹمز انفورسمنٹ کی فیلڈ فارمیشنز کے حکام کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔ جبکہ آپریشن کو کامیاب بنانے کیلئے کسٹمز کے ساتھ پاکستان رینجرز، پولیس، ایف سی سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی شامل کرنے کیلئے ٹاسک فورس قائم کردی گئی ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق ملک بھر میں اربوں روپے مالیت کی لگژری نان کسٹم پیڈ اسمگل شدہ گاڑیاں چلانے والوں کے خلاف کارروائی کا حتمی فیصلہ آرمی چیف اور نگران وزیراعطم کی جانب سے کیا گیا ہے۔ جس پر عملدرآمد کیلئے مقتدرہ اور سول اداروں کو مشترکہ حکمت عملی قائم کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
فیصلہ ہوتے ہی ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز سے وزارت صنعت و تجارت اور وزارت خزانہ کے تحت رپورٹیں طلب کی گئیں۔ جبکہ عملی کارروائیوں کیلیے کسٹمز فیلڈ فارمیشنز ڈائریکٹوریٹ جنرل کسٹمز انٹیلی جنس اور کسٹمز انفورسمنٹ کے تحت سندھ، پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور اسلام آباد میں خصوصی ٹیمیں قائم کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ان ٹیموں میں اینٹی اسمگلنگ کے پرانے تجربہ کار افسران شامل کیے جا رہے ہیں۔
جبکہ ان کے انفارمرز بھی زیادہ ہیں۔ اس آپریشن کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے تحت مالا کنڈ ڈویژن میں بھی نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے خلاف کارروائیوں کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جو ٹیکس فری زون خیال کیا جاتا ہے اور یہاں نان کسٹمز پیڈ گاڑیاں خریدنا اور چلانا عام بات ہے۔ اس معاملے پر مالاکنڈ ڈویژن میں ہلچل مچ گئی ہے۔ تاہم مشکلات اور تنقید کے باجود آپریشن مکمل کرنے کی تیاریاں ملکی معاشی استحکام کی پالیسی کے تحت شروع کردی گئی ہیں۔ ’’امت‘‘ کو اہم ذرائع نے بتایا کہ آپریشن سے قبل ایف بی آر سے لی جانے والی رپورٹوں میں یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ ماضی قریب میں نان کسٹم پیڈ لگژری گاڑیوں کیخلاف معمول کی جو کارروائیاں کی گئیں۔ ان میں کس قسم کے حقائق اور معلومات سامنے آئیں۔
ذرائع کے بقول ان رپورٹوں کی روشنی میں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں چلانے والے مالکان کیخلاف اسمگلنگ کے کیس بنانے کے بجائے ان سے فوری واجب الادا ڈیوٹی اور ٹیکس وصول کرنے کی پالیسی کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ کیونکہ اسی میں ملکی مالی مفاد موجود ہے۔ چونکہ مقدمات قائم کرکے گاڑیاں ضبط کرنے کے بعد عدالتی نظام میں کیسوں کے منقطی انجام تک پہنچنے اور گاڑیاں نیلام ہونے میں کئی مہینے اور برس ضائع ہو جاتے ہیں۔ اس لئے یہ ایک لمبا اور پیچیدہ معاملہ ہوسکتا ہے۔ جس میں سرکاری وسائل استعمال کرکے مزید نقصان ہوسکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایسی گاڑیوں کو پکر کر ڈیوٹی اور ٹیکس کا تخمینہ لگاکر رقم وصول کرکے قومی خزانے میں جمع کرنے کی پالیسی موثر ثابت ہوگی۔ جبکہ مزاحمت کرنے والوں اور ٹیکس نہ دینے والوں کے خلاف گاڑیاں ضبط کرنے اور مقدمات درج کرنے کی کارروائی کی جائے گی۔ ذرائع کے بقول اندازے کے مطابق اب تک ملک بھر میں انٹیلی جنس انفارمیشن کی بنیاد پر ایسی ایک لاکھ سے زائد گاڑیاں پولیس کے پاس باضابطہ رجسٹر کی گئی ہیں۔ جنہیں ڈیوٹی اور ٹیکس کی ادائیگی کے بعد ریگولرائز کیا جائے گا۔
ان کے علاوہ بھی 2 سے 3 لاکھ گاڑیاں بغیر رجسٹریشن کے سڑکوں پر ہیں۔ اس عمل سے سرکاری خزانے میں 25 ارب سے زائد کے محصولات جمع ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اسی طرح 5 برس میں تھانوں میں پولیس کے پاس رجسٹر گاڑیوں کے علاوہ بھی دو سے 3 لاکھ گاڑیاں بغیر کسٹم ادا کیے پاکستان میں داخل ہوئیں۔ جنہیں آپریشن کے دوران حکومتی تحویل میں لیا جا سکتا ہے۔
ایف بی آر اور دیگر سرکاری اداروں کے ذرائع کے مطابق نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کیخلاف آپریشن کا فیصلہ آرمی چیف کے حالیہ دورہ پشاور کے دوران کیا گیا۔ جس کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں اور کسٹمز کے پاس موجود اسمگل شدہ گاڑیوں کا ڈیٹا جمع کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ ذرائع کے بقول اس معاملے میں 2 قسم کی درجہ بندی بنائی گئی ہے۔ پہلی درجہ بندی میں وہ گاڑیاں شامل ہوں گی۔ جن کے انجن نمبر اور چیسس نمبر اصلی ہیں اور وہ اسمگل کرکے لائی گئیں۔ جبکہ انہیں کسی صوبے کے ایکسائز ڈپارٹمنٹ میں رجسٹرڈ بھی نہیں کروایا گیا۔ ایسی گاڑیوں کو ہی ڈیوٹی اور ٹیکس وصول کرکے ریگولرائز یعنی رجسٹرڈ کرکے مالکان کو چلانے کی اجازت دی جائے گی۔
تاہم دوسری درجہ بندی میں وہ گاڑیاں ہیں۔ جن کے انجن اور چیسس نمبرز تبدیل کرکے انہیں جعلسازی سے صوبائی ایکسائز ڈپارٹمنٹس میں رجسٹرڈ کروایا گیا۔ ایسی گاڑیاں کے مالکان اور ملوث ایکسائز افسران کیخلاف فوجداری دفعات کے تحت جعلسازی، کرپشن اور اسمگلنگ سمیت ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کے مقدمات درج کیے جائیں گے۔
اسی طرح ایمنسٹی اسکیم بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ ایمنسٹی اسکیم ایسی ہوگی جس میں شہریوں کو رضاکارانہ سہولت کے بجائے قانون کے ذریعے مجبور کیا جائے گا کہ وہ لاگو ڈیوٹی اور ٹیکس ادا کریں اگر انہیں لگژری گاڑیاں چلانی ہیں۔ بصورت دیگر گاڑیاں ضبط ہونگی۔ یہ پالیسی اس لئے بھی اختیار کی گئی کہ نان کسٹم پیڈ لگژری گاڑیاں زیادہ تر سندھ، بلوچستان، پنجاب اور کے پی کے بااثر افراد، وڈیرے، نواب، سردار، سیاستدان، حاضر و ریٹائرڈ افسران چلاتے ہیں۔ اس لئے صرف کسٹمز افسران کارروائی میں ناکام رہتے ہیں۔ اس بات کا اندازہ ماضی قریب میں وفاقی ٹیکس محتسب کی اس کارروائی سے لگایا جاسکتا ہے۔ جس میں قرار دیا گیا کہ نان کسٹم پیڈ لگژری گاڑیوں کی ضبطی کے معاملے میں مختلف شہروں کے کسٹمز کلکٹریٹس نے نہ کسی ملزم کو نامزد کیا نہ کسی کو سزا دی گئی۔
ریکارڈ سے یہ بھی انکشاف ہوا کہ 10 برسوں میں نان کسٹم پیڈ لگژری اسمگل شدہ گاڑیاں رکھنے اور چلانے کے جرم میںکسی کے خلاف مقدمہ بھی درج نہیں کیا گیا۔ ایف بی آر کی طرف سے وفاقی ٹیکس محتسب کو اس حوالے سے جو رپورٹ جمع کرائی گئی۔ اس کے مطابق جولائی 2013ء سے لے کر جنوری 2019ء تک تمام کلیکٹوریٹس نے 3299 گاڑیاں ضبط کیں اور ہر سال یہ تعداد بڑھتی گئی۔ اس حوالے سے وفاقی ٹیکس محتسب نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہر سال نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی ضبطی کی بڑھتی تعداد کسٹم حکام کی اسمگلنگ روکنے کی کارکردگی کے دعوے کی نفی کرتی ہے۔
اگر سمگلنگ روکنے کیلئے سنجیدہ اقدامات اٹھائے گئے ہوتے تو یہ تعداد بڑھنے کی بجائے کم ہوئی ہوتی۔ ذرائع کے بقول نان کسٹمز پیڈ گاڑیاں عام طور پر افغانستان کے راستے پاکستان پہنچتی ہیں۔ بلوچستان، خیبر پختونخوا کے سابق قبائلی علاقوں، مالاکنڈ ڈویژن اور گلگت بلتستان میں عام چلائی جاتی ہیں۔ یہ گاڑیاں بیحد سستی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر جس رجسٹرڈ گاڑی کی مارکیٹ میں قیمت ایک کروڑ ہوتی ہے۔ وہی این سی پی گاڑی 15 سے 20 لاکھ کی بھی مل جاتی ہے۔ حکومت نے 2012ء میں این سی پی گاڑیوں کیلئے ایمنسٹی اسکیم شروع کی تھی۔ جس کے تحت 90 ہزار گاڑیوں کی رجسٹریشن کروائی گئی تھی۔