اسلام آباد: چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے آپ کو میرا سوال پسند نہیں آیا جو آپ نے جواب نہیں دیا،اتنی باریکیوں میں مت جائیں، سپریم کورٹ کے اختیار استعمال کرنے پر کیا کہیں گے؟سپریم کورٹ نے تو کئی بار اپنے اختیار سے تجاوز کیا، تجاوز کی بات آپ نہیں کریں گے کیونکہ آپ کو روز یہاں پیش ہونا ہے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ سپریم کورٹ نے آئین میں کون سے درج اختیارات پرعمل کیا ہے؟بہت ہو گیا ملک سے کھلواڑ،سپریم کورٹ نے کیسے فیصلہ کیا ایک جج کو مخصوص کیسز سننے سے منع کیا گیا؟چالیس گھنٹوں میں کسی نے سپریم کورٹ کی غلطی پر بات نہیں کی،سپریم کورٹ کی غلطیوں سے متعلق درخواست تو دائر ہونے کا بھی اختیار نہیں۔
سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف کیس کی سماعت جاری ہے، چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں فل کورٹ سماعت کررہا ہے، دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ ماسٹر آف روسٹرکا لفظ کہاں سے آیا،جیسے ہم کہتے ہیں جمہوریت کا لفظ ماخذ میگنا کارٹا ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ جب ہم اسکول میں پڑھتے تھے وہاں ماسٹر ہوتا تھا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نوآبادیاتی یا غیرنوآبادیاتی کی بحث میں نہ پڑیں،اگر کسی کو شکایت ہے کہ پچھلوں سے شکایت ہے تو آپ کر دیں،ہم کہتے ہیں پریکٹس اینڈ پروسیجر ہمارا کام ہے آپ نے ہمیں جکڑ لیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ماسٹر آف روسٹر کا لفظ کہاں سے آیاَ؟ کیا ایسا انگلستان، امریکا یا کہیں اور ہے،جسٹس منیب اختر نے کہاکہ سوال یہاں بھی یہی ہے اس قانون کے تحت ماسٹر آف روسٹر 3رکنی ججز کمیٹی ہوگی،جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر ایک لفظ کی 2تشریحات ہوں گی تو اس پر آئینی پرنسپل کیا ہے،کون سی تشریح اپنائی جائے گی؟
اٹارنی جنرل نے کہاکہ آرٹیکل 184اور 185میں سپریم کورٹ کا اختیار بڑھانے کی کوئی ممانعت نہیں،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ سپریم کورٹ کو تو اپنے دائرہ اختیار میں توسیع پر خوش ہونا چاہئے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے آپ کو میرا سوال پسند نہیں آیا جو آپ نے جواب نہیں دیا،اتنی باریکیوں میں مت جائیں،توسپریم کورٹ کے اختیار استعمال کرنے پر کیا کہیں گے؟سپریم کورٹ نے تو کئی بار اپنے اختیار سے تجاوز کیا، تجاوز کی بات آپ نہیں کریں گے کیونکہ آپ کو روز یہاں پیش ہونا ہے،
چیف جسٹس نے کہاکہ سپریم کورٹ نے آئین میں کون سے درج اختیارات پر عمل کیا ہے؟بہت ہو گیا ملک سے کھلواڑ،سپریم کورٹ نے کیسے فیصلہ کیا ایک جج کو مخصوص کیسز سننے سے منع کیا گیا؟چالیس گھنٹوں میں کسی نے سپریم کورٹ کی غلطی پر بات نہیں کی،سپریم کورٹ کی غلطیوں سے متعلق درخواست تو دائر ہونے کا بھی اختیار نہیں ہے،ملک کو آگے بڑھنا ہے،پہلے انگریز چیف جسٹس تھے جن کا فیصلہ مولوی تمیز الدین کے حق میں تھا،تین یا چار ججز پر بنچ بنا کر کون سا اختیار استعمال ہوا ہے یہ بتادیں،اس بارے میں بات کیوں نہیں کرتے کہ بنچز بناتے وقت کون سا اختیار استعمال ہوا تھا۔
چیف جسٹس نے کہاکہ ایک بنچ نے فیصلہ کیا، دوسرے بنچ نے اسے ختم کردیا،یہ نہ نظرثانی کااختیار تھا نہ ہی اپیل کا،معاملہ صرف دائرہ اختیار کا ہے تو اس کیس میں بھی نظرثانی دائر کریں،کسی درخواستگزار نے کہاکہ کہ عدالت کا خود اختیار سے تجاوز کرنا غلط ہے،اپنا سوال چھوڑ رہا ہوں چاہیں تو جواب دیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے آپ کو میرا سوال پسند نہیں آیا جو آپ نے جواب نہیں دیا،اتنی باریکیوں میں مت جائیں،توسپریم کورٹ کے اختیار استعمال کرنے پر کیا کہیں گے؟سپریم کورٹ نے تو کئی بار اپنے اختیار سے تجاوز کیا، تجاوز کی بات آپ نہیں کریں گے کیونکہ آپ کو روز یہاں پیش ہونا ہے۔
سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف کیس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہاکہ ایکٹ میں پارلیمنٹ کا مسئلہ ازخود نوٹس یا آرٹیکل 184تین سے متعلق طریقہ کار بناناتھا،پارلیمنٹ نے ایکٹ میں ازخودنوٹس سے نکل کر ہر طرح کے کیس کیلئے ججز کمیٹی بنا دی،ایک دم سے ساری چیزیں اوپر نیچے کرنا پارلیمنٹ کیلئے ٹھیک نہیں تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ رولز کے تحت اپنااختیار بڑھا سکتی ہے،اٹارنی جنرل نے کہاکہ سپریم کورٹ آئینی ادارہ ہے اس کااختیار رولز سے نہیں بڑھایا جا سکتا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ میرے سوال کا جواب ابھی تک نہیں ملا،جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ کوئی مثال دے دیں کہ سپریم کورٹ سے متعلق یہ چیز بدل نہیں سکتی،کون سے آئینی کمانڈ سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی سے روک رہی ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ آپ اور کتنا وقت لیں گے؟اٹارنی جنرل نے کہاکہ آدھے گھنٹے میں دلائل مکمل کر لوں گا۔
جسٹس منیب اختر نے کہاکہ اٹارنی جنرل صاحب آپ غیرمعمولی بات کررہے ہیں،آپ میری دلیل تو سمجھیں،اٹارنی جنرل نے کہاکہ آپ کی بات سمجھ گیا ہوں لیکن پھر بھی آپ کہہ دیں،ایگزیکٹو اور پارلیمان کے رولز قانون کا درجہ رکھتے ہیں،رولز قانون ہوتے ہیں لیکن یہ آرٹیکل 191میں استعمال شدہ لفظ قانون نہیں کہلائیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آپ نے بحث کسی اور بنیاد پر شروع کی تھی،اگر آپ اپنے دلائل ہی جاری رکھتے تو یہ مشکل کھڑی نہ ہوتی،کچھ سوالات کے ہاں یا ناں میں جواب دینا مشکل ہوتا ہے،جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ آپ کے مطابق رولز عام طور پر قانون ہوتے ہیں تو عدالت لفظ قانون کی تشریح کس اصول پر تشریح گی؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ رولز کے بعد قانون سازی نہیں ہوسکتی تو کوئی سن سیٹ کلاز ہونی چاہئے تھی، رولز بننے کے بعد قانون سازی نہیں ہو سکتی تو آرٹیکل 191میں لا کے لفظ کا کیا مطلب ہے؟جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیاکہ رولز بننے کے بعد یہ ایکٹ آف پارلیمنٹ سےرولز کو ٹرمپ کیا جاسکتا ہے؟کیا رولز بننے کے بعد ان کو ایکٹ آف پارلیمنٹ سے بے کار کیا جا سکتا ہے؟جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ موجودہ کیس آرٹیکل 191کا ہے تو تشریح اس کے تناظر میں ہی ہوگی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ قانون کی جتنی مرضی اقسام ہوں ایکٹ آف پارلیمنٹ آگیا تو بات ختم، جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ پارلیمنٹ بھی ایکٹ بنا سکتی اور رولز بھی بنائے جا سکتے تو متصادم قوانین ہو سکتے ہیں؟جسٹس مظاہر نقوی نے کہاکہ آپ کی دلیل مان لیں تو بتا دیں آرٹیکل 191کا مقصد کیا تھا؟۔