احمدخلیل جازم :
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے سائفر کیس مین درخواست ضمانت پر دلائل دیتے ہوئے کہاکہ نیشنل سکیورٹی وہاں پر ہے جہاں دشمن ممالک کیساتھ معلومات شیئر ہوئیں،ان کا کیس ہے سائفر ریکور کرنا ہے،ان کو ٹرائل جج نے ریمانڈ ہی نہیں دیا،یہ کسی ایک شخص کا نہیں ایک حکومت کا ایکشن تھا،اگر ایک حکومت کہے پچھلی حکومت کافیصلہ ٹھیک نہیں تھا،چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے کہاکہ وزارت خارجہ کیوں اس کا مدعی نہیں، وزارت داخلہ کیوں ہے۔
نجی ٹی وی کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی،چیف جسٹس عامر فاروق کیس کی سماعت کررہے ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر اورتینوں سپیشل پراسیکیوٹرز ایف آئی اے عدالت میں پیش ہوئے،سپیشل پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی، شاہ خاور اور ذوالفقار نقوی روسٹرم پر موجود ہیں۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہاکہ 9اکتوبر کو نقول ملزمان کو دی گئیں،ملزمان کے وکلا نے کہاکہ جیل سماعت کیلئے درخواست زیرالتوا ہے،چیف جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ جیل سماعت کیخلاف درخواست پر فیصلہ کل یا پیر کو آ جائے گا، سپیشل پراسیکیوٹر نے کہاکہ عدالت ان کیسز کو اکٹھاکرکے ہی سن لے۔
چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہاکہ ضمانت کا کیس الگ ہے اس کو الگ ہی سنا جانا ہے، ٹرائل کے حوالے سے کوئی سٹے آرڈر موجود نہیں،ٹرائل کورٹ نے ٹرائل اپنے لحاظ سے چلانا ہے،سپیشل پراسیکیوٹر نے کہاکہ یہ ٹرائل کو چلنے نہیں دے رہے،وکیل سلمان صفدر نے کہاکہ بڑے افسوس کی بات ہے ٹرائل کورٹ کے ایشوز یہاں لے کر آگئے ہیں،یہ تو پنڈورا باکس کھلے گا تو ان کو پتہ چلے گا، عدالت نے سلمان صفدر کو ہدایت کی کہ سیکشن 5آپ دوبارہ پڑھ لیں۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ نیشنل سکیورٹی وہاں پر ہے جہاں دشمن ممالک کیساتھ معلومات شیئر ہوئیں،ان کا کیس ہے سائفر ریکور کرنا ہے،ان کو ٹرائل جج نے ریمانڈ ہی نہیں دیا،یہ کسی ایک شخص کا نہیں ایک حکومت کا ایکشن تھا،اگر ایک حکومت کہے پچھلی حکومت کافیصلہ ٹھیک نہیں تھا،وزارت خارجہ کیوں اس کا مدعی نہیں، وزارت داخلہ کیوں ہے،17ماہ کی تاخیر سے ایف آئی آر کیوں درج ہوئی،یہ معاملہ 4فورمز پر رکھا گیا اور بعد میں ایف آئی آر درج کرلی گئی،کابینہ اجلاس، نیشنل سکیورٹی کمیٹی میٹنگ، سپریم کورٹ میں معاملہ ڈسکس ہوا،یہ معاملہ 2مرتبہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے پاس گیا، اس کے متن کے اوپر فارن ڈپلومیٹ کو بلا کر احتجاج کیا گیا۔
سلمان صفدر نے کہاکہ پراسیکیوشن کا کیس، سائفر 7مارچ 2022کو آیا، 11مارچ تک پٹیشنر کے پاس رہا،11اپریل کو شہبازشریف نے بطور وزیراعظم حلف لیا،وزیراعظم کی سربراہی میں24اپریل کونیشنل سکیورٹی کمیٹی میٹنگ ہوئی،5ماہ بعد کابینہ ایف آئی اے کو آگاہ کرتی ہے سائفر غائب ہے،ایف آئی اے 6دن بعد معاملے پر انکوائری شروع کردیتی ہے،اگر سائفر وزیراعظم ہاؤس میں تھا تو کیا شہبازشریف کیس میں ملزم ہیں؟انہیں شامل تفتیش کرکے بیان لیاگیا؟نیشنل سکیورٹی کمیٹی میٹنگ سائفر کے بغیر کیوں کی گئی تھی؟یہ ساری باتیں ایف آئی آر میں کیوں نہیں لکھی گئیں؟