اسلام آباد(اُمت نیوز) بھارتی سپریم کورٹ نے ملک میں ہم جنس پرستوں کی شادیوں کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔
اس فیصلے نے طویل عرصے سے منتظر درخواست گزاروں کی اس امید پر پانی پھیر دیا ہے کہ دنیا بھر میں شادی کی برابری کے حقوق رکھنے والے افراد کی تعداد دوگنی سے زیادہ ہوجائے گی کیونکہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے اس اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے دلیل دی تھی کہ ہندوستانی ثقافت میں شادی مرد اور عورت کے درمیان ہوتی ہے۔
صرف تائیوان اور نیپال ایشیا میں ہم جنس پرستوں کے درمیان شادی کی اجازت دیتے ہیں، جہاں زیادہ تر قدامت پسند اقدار اب بھی سیاست اور معاشرے پر حاوی ہیں۔
بھارت کی سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستوں کی شادیوں کو قانونی حیثیت دینے کے بارے میں آج (منگل 17 اکتوبر کو) فیصلہ سنایا، یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس سے دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں اہم تبدیلیاں پیدا ہونے کا امکان ہے۔
سپریم کورٹ کے 2018 کے تاریخی فیصلے کے بعد اس معاملے کو ہندوستان میں ایل جی بی ٹی کیو حقوق کے لئے ایک سنگ میل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جس نے نوآبادیاتی دور میں ہم جنس پرستوں پر پابندی کو ختم کر دیا تھا۔
چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی میں بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے اپریل اور مئی کے درمیان اس معاملے میں دلائل سنے اور 11 مئی کو اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
بھارتی حکومت نے اپیلوں کی مخالفت کرتے ہوئے انہیں ’شہری اشرافیہ کے خیالات‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ پارلیمنٹ اس معاملے پر بحث کے لیے صحیح پلیٹ فارم ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس طرح کی شادیاں شوہر، بیوی اور بچوں کے ہندوستانی خاندانی یونٹ کے تصور سے موازنہ نہیں کرتی ہیں۔
دوسری جانب بھارت کی ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی کے لوگوں کا کہنا ہے کہ 2018 کے فیصلے کے باوجود انہیں اپنی روزمرہ زندگی میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ ہم جنس پرستوں کی شادی کی قانونی حمایت کمیونٹی کے آئینی حقوق کا تحفظ کرے گی۔
واضح رہے کہ بھارت میں 2018 میں ہم جنس پرستی کو جرم قرار دیا گیا تھا، ہم جنس پرستوں کی شادیوں کو اب بھی سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے حال ہی اس حوالے سے متعدد درخواستوں کی سماعت کی تھی جس پر آج فیصہ سُنایا گیا ہے۔