اسلام آباد(اُمت نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان میں ملک میں عام انتخابات کیلئے دائر درخواستوں پر سماعت جاری ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دئیے ہیں کہ صدر مملکت نے انتخابات کی تاریخ نہیں دی تو ہم کیا کریں؟کیا ہم صدر مملکت کو تاریخ نہ دینے پر نوٹس دیں؟صدر مملکت کیخلاف ہم کیا کرسکتے ہیں،اپنی رٹ بحال کرنے کیلئے حکم جاری کرسکتے ہیں،اگر کوئی آئین کی خلاف ورزی کررہا ہے تو آرٹیکل 6 لگے گا۔
چیف جسٹس چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ میں جسٹس امین الدین اور جسٹس اطہر من اللہ بھی میں شامل ہیں۔ درخواست گزار ایڈووکیٹ عابد زبیری روسٹرم پر آگئے۔
درخواستگزار عابد زبیری کا کہنا تھا کہ ہم نے 5 اگست کو مشترکہ مفادات کونسل کا فیصلہ چیلنج کیا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے درخواست کب دائر کی اور اب تک لگی کیوں نہیں؟ عابد زبیری نے کہا کہ اگست کی ہی درخواست تھی مگر کیس فکس نہیں ہوا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں کورٹ اسٹاف نے نوٹ دیا ہے کہ آپ نے کوئی جلد سماعت کی درخواست نہیں دی، یہ ایک ارجنٹ معاملہ ہونا چاہیئے تھا۔
وکیل خواجہ احمد حسین بولے کہ کچھ نئی درخواستیں دائر کی گئی ہیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ آخری آرڈر کے مطابق اٹارنی جنرل کے دلائل چل رہے تھے،پہلے اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہو جائیں تو پھر کیس کو چلانے کے طریقہ کار کو دیکھیں گے، وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل اس کیس کے فیصلے سے پہلے ہی شروع کر دیا گیا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ پہلے اٹارنی جنرل کو دلائل مکمل کرنے دیں پھر سب کو سنیں گے۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کا ایک سے ڈیرھ گھنٹا لوں گا،چیف جسٹس پاکستان بولے کہ آپ ہمیں کیا دستاویزات دے رہے ہیں،وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ میں 2017 کی مردم شماری کی دستاویزات دے رہا ہوں، چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ 2017 کے بعد مردم شماری کا آغاز کرنے میں کتنے سال لگے؟2021 میں مردم شماری کا دوبارہ آغاز ہوا، آپ دوسری بار غلط بیانی کرر ہے ہیں،آپ عدالت کو غلط حقائق بتا رہے ہیں،ایک چیز منسوخ ہوگئی تو اسکا ذکر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟2017 میں فیصلہ ہوا تو مردم شماری کا عمل 6 سال بعد کیوں شروع نہ ہوا؟کس نے مردم شماری کا آغاز تاخیر سے کیا؟
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ حقائق پر مقدمہ نہیں چلارہے ہیں،بلدیاتی انتخابات آئینی تقاضا تھے،عابد زبیری بولے کہ اپریل 2022 میں ایک حکومت ختم ہوئی، چیف جسٹس بولے کہ آپ کو اتنی تشویش تھی تو 2017 سے 2021 تک درخواست دائر کیوں نہیں کی،جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ جو بھی مردم شماری میں تاخیر کے ذمہ دار ہیں انہیں ذمہ دار ٹھہرایا جائے،کیا آپ چاہتے ہیں کہ انتخابات کروائے جائیں، عابد زبیری نے جواب دیا کہ جی بالکل ہم اتنی ہی بات چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ آپ کی ساری استدعاء مردم شماری کے بارے میں ہے،کیا آپ آئین کے آرٹیکل 224 کی عملداری مانگ رہے ہیں ؟عابد زبیری نے جواب دیا کہ جی ہاں عدالت سے میری یہی استدعا ہے،جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ90 دن کب پورے ہورہے ہیں، عابد زبیری بولے کہ 3 نومبر 2023 کو 90 دن پورے ہوجائیں گے، چیف جسٹس نے پھر پوچھا کہ اگر آج ہم 90 دنوں میں انتخابات کا حکم دیں تو کیا انتخابات ہو سکتے ہیں؟عابد زبیری نے جواب دیا کہ اگر آج عدالت حکم دے تو 3 نومبر کو انتخابات نہیں ہوسکتے، چیف جسٹس پاکستان بولے کہ پھر اپنی درخواست میں ترامیم کرلیں،صدر مملکت نے انتخابات کی تاریخ نہیں دی تو ہم کیا کریں؟کیا ہم صدر مملکت کو تاریخ نہ دینے پر نوٹس دیں؟صدر مملکت کیخلاف ہم کیا کرسکتے ہیں،اپنی رٹ بحال کرنے کیلئے حکم جاری کرسکتے ہیں،اگر کوئی آئین کی خلاف ورزی کررہا ہے تو آرٹیکل 6 لگے گا، لوکل گورنمنٹ انتخابات کیس میں سپریم کورٹ کے کہنے پر مردم شماری کا فیصلہ کیا گیا،ہم تاریخ کو فراموش نہیں کر سکتے،گزشتہ حکومت نے مردم شماری کرانے کے فیصلے کیلئے چار سال لگا دیئے۔
صدر سپریم کورٹ بار نے کہا ہے کہ صدر مملکت کو استثنی حاصل ہے، خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں انتخابات کے احکامات کا حکم بھی اسی عدالت نے دیا،چیف جسٹس نے عابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتی فیصلے پر عمدرآمد نہیں ہوا لیکن کیا دو صوبوں میں انتخابات کا کیس زیر سماعت ہے؟آپ وکیل ہیں لے آئیں ناں کوئی توہین عدالت کی درخواست، کس نے روکا ہے؟جب میں بلوچستان کا چیف جسٹس تھا صرف بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے، تاریخ دینے کے حوالے سے قانون میں ترمیم ہوگئی تھی،کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم آئین کے آرٹیکل 48 سے متصادم ہے؟الیکشن کی تاریخ کس نے دینی ہے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ کیا آپ انتخابات میں تاخیر چاہتے ہیں؟انتخابات تو ہونے ہیں،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ صدر مملکت کو ایک وکیل نے خط لکھا اس کا کیا جواب ملا؟ درخواست گزار منیر احمد بولے کہ صدر مملکت نے کوئی جواب نہیں دیا،چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ آپ تو تاخیر کا ذمہ دار صدر مملکت کو ٹھہرا رہے ہیں۔