اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے نیب ترامیم کیس میں اختلافی نوٹ جاری کردیا ،جسٹس منصور علی شاہ نے 27صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری کردیا۔
اختلافی نوٹ میں جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا ہے کہ عدلیہ قانون سازی کا تب جائزہ لے سکتی ہے جب وہ بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہو، قانون سازوں کا مفاد سامنے رکھ کر قانون سازی جانچنا پارلیمنٹ اور جمہوریت کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے۔
انہوں نے لکھا کہ اختلاف رائے رکھنے والا ہجوم کی سمت میں نہیں، مستقبل کی سمت میں چلتا ہے، عدالتوں کو پاپولر سیاسی بیانیے پر نہیں چلنا ہوتا، عوامی جذبات کیخلاف جا کربھی عدالت کو آئین وقانون کے مطابق فیصلے دینا ہوتے ہیں۔
انہوں نے نوٹ میں لکھا کہ اداروں کے درمیان توازن اسی صورت قائم رہ سکتا ہے جب احترام کا باہمی تعلق ہو، پارلیمانی نظام میں عدلیہ کو ایگزیکٹو یا مقننہ کے مخالف کے طور پر نہیں دیکھا جاتا، عدلیہ کو اس وقت تک تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے جب تک آئینی حدود کی خلاف ورزی نہ ہو۔
فاضل جج نے اپنے نوٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ پارلیمان کے بنائے تمام قوانین بالآخرکسی نہ کسی انداز میں بنیادی حقوق تک پہنچتے ہیں، نیب قانون کے تحت ججز اور فوجی افسران کا احتساب ہو سکتا ہے، کیس کی 50 سماعتوں پر سوال کیا کہ کیا فوجی افسران اور ججزکا احتساب ہو سکتا ہے؟ فوجی افسران اور ججزبھی نیب ترامیم کے تحت قابل احتساب ہیں، تاثر ہےکہ فوجی افسران اورججز کی کرپشن کا کوئی احتساب نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے مزید لکھا کہ عدالت پارلیمنٹ کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی، درخواست گزار کے وکیل نیب ترامیم کو بنیادی حقوق کے خلاف ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے، پارلیمنٹ جو کر سکتی ہے اس کو ختم بھی کر سکتی ہے، مسلسل سوال کے باوجود درخواست گزار نہیں بتا سکے کہ نیب ترامیم سے بنیادی حقوق کیسے متاثر ہوئے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 15ستمبر کو نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیا تھا،سپریم کورٹ نے دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ جاری کیاتھا، جسٹس منصور علی شاہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔