اسرائیل حماس جنگ اور مغربی ذرائع ابلاغ کا شعوری بغض

کراچی (امت خاص ) ذرائع ابلاغ کے ماہرین اور عرب صحافیوں کا کہنا ہے کہ غیر مصدقہ دعوؤں کی اشاعت، کہانی کا صرف ایک رخ بتانا اور فلسطینیوں کو حماس کے ہاتھوں میں موجود کسی کھلونے یا چیز کے سوا کچھ نہ سمجھنا، یہ سب وہ غیرپیشہ ورانہ غلطیاں ہیں جو مغربی میڈیا اسرائیل اور حماس کی لڑائی کی کوریج کے دوران کر رہا ہے۔الجزیرہ کی ایک رپورٹ میں ماہرین اور صحافیوں نے بتایا کہ ’’اسرائیل کے حق میں منظم تعصب‘‘ کے باعث مین سٹریم سمجھنے جانے والے خبررساں اداروں کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہا ہے۔مغربی ذرائع ابلاغ جیسے فلسطینیوں کو غیرانسانی بنا کر پیش کرتے ہیں اور اسرائیل کی عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں کو جائز دیتے ہیں،اس سے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ فلسطینیوں کے گذشتہ 75سالوں کے صدمے کو نظر انداز کیا جا رہا ہے

۔تجزیہ کار تغرید الخوردی نےکہا مغربی ذرائع ابلاغ اسرائیلی بیانیے کی صرف کوریج نہیں کر رہے بلکہ اس بیانیے کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔مغربی میڈیا میں فلسطینیوں کیلئے ’’متاثرین ‘‘ کا لفظ نہیں بولا جاتا، جیسا کہ اسرائیلیوں کیلئے بولا جاتا ہے۔غزہ میں انسانی جانوں کے ضیاع کا احاطہ کرنے کے بجائے بیشتر مغربی میڈیا میں امریکی و اسرائیلی موقف کی بازگشت سنائی دیتی ہے کہ اسرائیل کو اپنے’’ دفاع کا حق‘‘ حاصل ہے اور حماس لوگوں کو ’’انسانی ڈھال‘‘ کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کے محقق عروہ ڈیمن نے کہا کہ یہ ’’دوہرے معیار‘‘ مغربی میڈیا میں مسلمانوں اور عربوں کو ’’انسان سے کم تر‘‘ کے طور پر پیش کرنے کے وسیع رجحان کی عکاسی کرتے ہیں۔اب ہم جو دیکھ رہے ہیں وہ پرانے طرزعمل کا اعادہ ہے، بالخصوص نائن الیون کے بعد جب مسلمانوں کا تشخص ’’دہشت گرد‘‘بنا کر پیش کیا گیا تھا۔

مغربی نیوز چینل میں فلسطینیوں سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ کیا وہ ’’حماس کی مذمت‘‘ کرتے ہیں جبکہ اسرائیلیوں سے شاذونادر ہی پوچھا جاتا ہے کہ کیا وہ اپنی حکومت کی غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے کے متعلق نسل پرستانہ پالیسیوں یا بمباری کی مذمت کرتے ہیں۔الخوردی نے کہا مغربی میڈیا رپورٹ کرتا ہے کہ حماس ایک دہشت گرد گروہ ہے، لیکن اسرائیل کے اقدامات کے متعلق کچھ نہیں کہا جاتا کہ وہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے، نسل کشی کر رہا ہے، نسل پرستانہ نظام نافذ کر رکھا ہے اور غزہ کی 16سال سے ناکہ بندی کر رکھی ہے۔’’سیاق و سباق‘‘ کہاں ہے؟صرف یہ کہ حماس ’’دہشت گرد گروپ ہے‘‘، اور یہی وہ واحد تناظر ہے جو مغربی میڈیا پیش کر رہا ہے۔برطانوی فری لانس صحافی لیلیٰ مغربی نے کہا کہ بہت سے صحافی دونوں طرف کا سچ لکھنا چاہتے ہیں لیکن انہیں ڈر ہے کہ اگر وہ ’’اسرائیل نوازی‘‘ کیخلاف آواز اٹھائیں گے تو ان کی نوکری جائے گی۔ہم نہ صرف انسانیت کے عالمگیر جذبے میں بلکہ صحافت کے پیشے میں بھی ٹوٹ پھوٹ کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔