اسلام آباد (اُمت نیوز) نیب ترمیم فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل کی پہلی سماعت پر ہی وفاقی حکومت نے التوا مانگتے ہوئے سماعت 6 نومبر سے شروع ہونے والے ہفتے تک ملتوی کرنے کی استدعا کر دی۔
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا لارجر بینچ کر رہا ہے۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ وکیل مخدوم علی خان بیرون ملک ہیں، مخدوم علی خان نے التوا کی درخواست دی ہے، کچھ گزارشات پیش کر سکتا ہوں۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے کچھ اور درخواستیں بھی آئی ہیں، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں عدالت کی معاونت کرنے کیلئے تیار ہوں۔
اسی دوران وکیل درخواست گزار فاروق نائیک بھی روسٹرم پر آ گئے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فاروق نائیک صاحب آپ عدالتی فیصلے کی حمایت یا مخالفت کر رہے ہیں؟، وکیل فورق نائیک نے کہا کہ نیب ترامیم کیخلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کی مخالفت کر رہا ہوں۔
وکیل فاروق نائیک نے عدالت کو بتایا کہ میں نے درخواستیں کچھ فریقین کی جانب سے دائر کی ہیں، اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا پہلے اس کیس میں آپ فریق نہیں تھے؟، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میرے مؤکل نیب ملزم ہیں، انہیں فریق بنائے بغیر یہ فیصلہ دیا گیا۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں نے 2 نظرثانی کی درخواستیں دی تھیں اور ایک اپیل دائر کی تھی، چیف جسٹس نے کہا کہ اپیل اور نظرثانی کا سکوپ الگ، الگ ہے، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں نظر ثانی کی درخواستیں واپس لے کر اپیل کی پیروی کرنا چاہتا ہوں، میری گزارش ہوگی کہ اپیل میں مجھے سنا ضرور جائے۔
چیف جسٹس نے مخدوم علی خان کے معاون وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ قانونی سوال ہے جب آپ فریق نہیں تو سنا کیسے جائے؟، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سامنے کیوں نہیں کھڑے، اٹارنی جنرل کا شیلٹر کیوں لے رہے ہیں؟، بعد میں چیف جسٹس نے مخدوم علی خان کے معاون وکیل کو درخواست پڑھنے کی ہدایت کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے لکھا نیب ترمیم کیس پریکٹس اینڈ پروسیجر کے تحت 5 رکنی بینچ نے سننا تھا، آپ اس نکتے پر قائم ہیں تو پھر اس نکتے پر مطمئن کریں، اگر اس نکتے پر مطمئن کر لیا تو اپیل کے میرٹس پر نہیں جائیں گے، ایسی صورت میں ہم ترامیم کے خلاف درخواستیں بحال کر کے نیا بینچ بنا دیں گے یا پھر اس نکتے کو واپس لے لیں گے۔
وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ایسا نہ کریں، موجودہ اپیلیں ہی چلائیں، ایسا کیا تو نیب کورٹس میں مقدمات چلنا شروع ہو جائیں گے،ف اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھیں مخدوم علی خان نے اپنی درخواست میں یہ گراؤنڈ لے رکھی ہے۔