اسلام آباد: نیب ترامیم فیصلے کے خلاف اپیل پر سپریم کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی، اٹارنی جنرل اور تمام ایڈوکیٹ جنرل کو بھی نوٹس جاری کر دیا جبکہ ماتحت عدالتوں کو نیب کیسز کا فیصلہ کرنے سے بھی روک دیا۔
نیب ترامیم فیصلے کے خلاف اپیلیوں پر سماعت ساڑھے گیارہ بجے شروع ہوئی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ لارجر بینچ میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں۔
سپریم کورٹ نے عدالتی حکم اور اپیلوں کی نقول چیئرمین پی ٹی آئی کو جیل میں فراہم کرنے کا حکم دے دیا جبکہ عدالت نے صوبوں اور اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس جاری کر دیے۔ عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد نیب ترامیم انٹرا کورٹ اپیل دوبارہ مقرر کی جانے کا حکم دیا۔
سماعت کے حکم نامے کے مطابق عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ تیسری نیب ترمیم مئی میں آئی جبکہ فیصلے میں اس کا جائزہ نہیں لیا گیا، آگاہ کیا گیا کہ تیسری نیب ترمیم کے بعد مقدمہ کی چھ سماعتیں ہوئی تھیں اور بتایا گیا کہ تیسری ترمیم کے بعد ٹرائل کورٹس بھی کنفیوژن کا شکار ہیں کہ کیسے آگے چلا جائے۔
حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ عدالتی حکم نامے کی کاپی جیل میں چیئرمین پی ٹی آئی کو بھجوائی جائے، عدالتی حکمنامے کی کاپی فریق کو جیل میں بذریعہ جیل سپرنٹنڈنٹ کو بھجوائی جائے۔ ابتدائی سماعت کے دوران بتایا گیا کہ نیب قانون میں تین ترامیم کی گئیں، عدالت کو بتایا گیا کہ نیب کی تیسری ترمیم کو چیلنج نہیں کیا گیا۔
نیب ترامیم کیس کا فیصلہ معطل کرنے کی فاروق ایچ نائیک کی استدعا بھی مسترد کردی گئی۔
سپریم کورٹ نے کیس کے حتمی فیصلے تک تمام متعلقہ عدالتوں کو حتمی فیصلہ کرنے سے بھی روک دیا۔ حکم نامے میں کہا گیا کہ کیس کی آئندہ سماعت تک متعلقہ عدالتیں نیب کیسسز کا حتمی فیصلہ نہ کرے، متعلقہ عدالتیں ٹرائل تو جاری رکھ سکتی ہیں مگر ٹرائل پر حتمی فیصلہ نہ دیں، کوئی ملزم ٹرائل کورٹ سے ضمانت لینے کا بھی حقدار ہوگا۔