غزہ میں لاکھوں معصوم بچوں میں پانی کی کمی سے اموات کا خدشہ

غزہ (اُمت نیوز ) غزہ مسلسل بمباری، تباہی اور شہادتوں کے باعث ہزاروں فلسطینی عرب بچوں کا قبرستان بن چکا ہے ، اقوام متحدہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بچوں کی مزید اموات میں ایک اور بڑا سبب بچوں کے جسموں میں پانی کی کمی (ڈی ہائیڈریشن ) بن سکتی ہے۔
عرب میڈیا رپورٹس کے مطابق فلسطینی وزارت صحت کے پچھلے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق شہید ہونے والے فلسطینی شہریوں میں سے 3500 فلسطینی بچے شامل ہیں جن میں سے 133 بچوں کی عمریں ایک سال سے بھی کم تھیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق ( اتنے دنوں کی بمباری سے ہونے والی حد سے زیادہ تباہی کی وجہ سے ) اب خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ بڑی تعداد میں بچوں کی غزہ میں اموات پانی کی کمی کے عارضے کی وجہ سے ہو سکتی ہیں۔
یونیسیف کاکہنا ہے کہ ہمارا سنگین ترین خوف اس سے ہے کہ براہ راست بمباری کی وجہ سے شہید ہونے والے بچوں کی تعداد پانی کے کمی سے ہونے والی اموات کے باعث پس منظر میں جا سکتی ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق غزہ میں ہر طرح کے سول انفراسٹرکچر کی بمباری سے ٹارگٹڈ تباہی کے سبب پانی کی فراہمی کا نظام بھی تقریباً ختم ہو کر رہ گیا ہے ، اب یہ غزہ کی ضرورتوں کے مقابلے میں محض پانچ فیصد باقی بچا ہے۔
یونیسیف کے ترجمان جیمز ایلڈر کا کہنا ہے کہ بچوں کی ہلاکتوں کی تعداد جو پہلے چھوٹے اعداد میں تھی، پھر درجنوں میں ہوئی ، بعد ازاں بیسیوں کی تعداد میں تبدیل ہوتی ہوئی سینکڑوں میں اور اب یہ اموات ہزاروں کو پہنچ چکی ہیں ۔
اب تک بچوں کی اموات کی تعداد ساڑھے تین ہزار کو چھو چکی ہے جبکہ ہر آنے والے روز اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق فلسطین کے اقوام متحدہ میں سفیر نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں غزہ کی صورت حال پر بات کرتے ہوئے مسلسل بمباری کے نتیجے میں اسے زمین کا جہنم قرار دیا اور بتایا کہ ہر پانچ منٹ بعد ایک فلسطینی بچہ شہید ہو رہا ہے۔
دوسری جانب اسرائیل نے بمباری میں مزید اضافہ کر دیا ہے اور زمینی حملوں کی بھی کوشش میں یونیسیف فوری جنگ بندی کی اپیل کر رہا ہے تاکہ غزہ میں امدادی کارروائیوں کے ذریعے کچھ جانیں بچائی جا سکیں۔
یونیسیف کے مطابق اب تک دس لاکھ سے زائد بچے پینے کے صاف پانی سے محروم ہو چکے ہیں، غزہ میں انسانی بنیادوں پر وسیع امدادی کارروائیوں کے لیے رسائی کے بغیر غزہ میں انسانی زندگیوں کو بچانے کا کام محض نہ ہونے کے برابر رہے۔
جیمز ایلڈر نے مزید کہا اگر غزہ میں جنگ بندی نہ کی گئی تو غزہ میں پانی نہیں ہو گا، دوائی نہیں ہو گی، اور نہ ہی غزہ میں پھنسے بچوں کو نکالا جا سکے گا۔
جیمز ایلڈر کے مطابق اس غزہ میں 130 بچے ایسے ہیں جن کی پیدائش قبل از وقت ہوئی ہے، ان کے لیے انکیوبیٹرز کی ضرورت ہے، ان 130 میں سے 61 شمالی غزہ میں ہیں ، یہ سب بھیی تباہ شدہ غزہ موت کے نشانے پر ہیں لیکن اس کے باوجود غزہ کو بہت کم امدادی سامان پہنچ رہا ہے یہ سب ناقابل برداشت ہے۔

واضح رہے جنیوا میں اسرائیلی سفیر پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ غزہ میں 33 بچے اغوا کر کے بھی لائے گئے ہیں، ان میں نوماہ کی بچی بھی شامل ہے جو اپنی ماں کے ساتھ لائی گئی ہے تاہم اسرائیلی سفیر نے غزہ میں ہزاروں بچوں کی اب تک ہو چکی اموات کا کوئی ذکر نہیں کیا۔