غزہ پرحکومت اور فلسطینی ریاست: امریکی اسٹیبلشمنٹ کے دو مخمصے

کراچی (امت خاص) امریکا کےموقر اخبار نیویارک ٹائمز میں شائع ایک کالم میں کہا گیا ہےکہ اسرائیل اور حماس کے لڑائی کے باعث جہاں جوبائیڈن انتظامیہ پر دباؤ بڑھ رہا ہے، وہیں اعلیٰ سول و فوجی عہدیدار دو معاملات پر خدشات کا اظہار کر رہے ہیں؛ غزہ پر حکمرانی اور فلسطینی ریاست کے قیام کا معاملہ۔ تھامس فریڈمین نے اپنے کالم میں لکھا کہ حکام کے مطابق پہلا معاملہ یہ ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ شہر کو قبضے میں لینا چاہتی ہے جہاں حماس کی افرادی اور فوجی قوت کا بنیادی ڈھانچہ موجودہے تاکہ اسےبطور لانچنگ پیڈ استعمال کر کے حماس کی باقی قیادت کو نشانہ بنایا جائے۔ تاہم اسرائیلی فوج شہری جنگ کے ایک ناگزیرچیلنج کا سامنا کر رہی ہے،فوجی گلیوں میں موجود ہیں اورحماس کے ٹھکانے کو اڑانے کیلئے فضائی حملے کا گرین سگنل دیتے ہیں جس کے نتیجے میں بیگناہ شہریوں کی ہلاکتیں ہوتی ہیں۔

امریکی حکام کے مطابق اس حکمت عملی کو زیادہ دیر تک نظرانداز یا اس کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ دوسرا یہ کہ امریکہ سمجھتا ہے اسرائیل کی حکمت عملی میں ایک بڑا خلا ہے؛ اگر حماس کو بے دخل کیا جاتا ہے توغزہ پر حکومت کون کرے گا؟ واحد امکان مقبوضہ مغربی کنارے میں موجود فلسطینی اتھارٹی کا ہے۔لیکن فلسطینی اتھارٹی اسی صورت میں یہ کردار ادا کرے گی جب اسے اپنے اختیارات میں اضافہ کرنے کی اجازت دی جائے گی اور اسرائیل دو ریاستی حل کی جانب واضح اور موثر پیشرفت کرے۔لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے اور نتن یاہو کی حکومت مقبوضہ مغربی کنارے کوبھی ضم کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔اب صورت حال یہ ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ پر قبضہ کرنا چاہتی ہےتاکہ اسے حماس سے لے کر فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کیا جائے جبکہ اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے سیاستدان فلسطینیوں کو مغربی کنارے سے ہی نکالنے کیلئے زور و شور سے سرگرم ہیں۔

کڑوا سچ یہ ہے کہ اسرائیل غزہ سے باہر نکلے بغیراور وہاں حکومت کیلئے قابل اعتماد فلسطینی اتھارٹی کے بغیر مغرب کی حمایت کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔ امریکا اسرائیل کو ایک چیک لکھ کر دے سکتا ہے لیکن وہ چیک بلینک نہیں ہوگا،ایک دن تو اس کی میعاد ختم ہو گی اور پھر انتہائی تکلیف دہ فیصلوں کی ضرورت ہو گی، جیسا کہ وہ فیصلے اصل میں ہونے چاہئیں۔