اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کر کے ریمارکس دیے یقینی بنائیں کہ غیرمناسب طریقے سے ٹرائل آگے نہ بڑھایا جائے۔
عدالت نے کہا کہ ٹرائل کی عمارت کو ایسے کھڑا نہ کریں کہ وہ تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائے۔ اب ٹیکنالوجی کا دور ہے وقت بدل چکا ہے، انصاف نا صرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔
اٹارنی جنرل نے کہا میں یقینی بناؤں گا کہ سائفر کیس کے ملزم کے حقوق متاثر نا ہوں ۔ عدالت نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو سنے بغیر جیل ٹرائل پر حکمِ امتناع نہیں دیں گے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیازپر مشتمل ڈویژن بنچ میں زیر سماعت چیئرمین پی ٹی آئی کی جیل ٹرائل اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کے جج کی تعیناتی کے خلاف انٹراکورٹ اپیل میں دلائل جاری رہے۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے بیرسٹر سلمان اکرم راجہ سے کہاکہ آپ اپنے موکل سے ہدایات لے کرعدالت کو آگاہ کر دیں،اگرآپ کواس عدالت پراعتماد نہیں تو بھی ہمیں بتا دیں.
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ ہمیں اس عدالت پر مکمل اعتماد ہے،وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ وزارت قانون نے عدالت اٹک جیل منتقل کرنے کا این او سی جاری کیا، ہائیکورٹ نے جیل سماعت کے خلاف درخواست پر 12 ستمبرکو فیصلہ محفوظ کر لیا،محفوظ فیصلہ 16 اکتوبر کو سنایا گیا اس دوران وزارت قانون نے مزید دو نوٹیفکیشنز جاری کر دیے، ہم وہ دونوں نوٹیفکیشنز بھی عدالتی ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں،وزارت قانون نے لکھا کہ انہیں چیئرمین پی ٹی آئی کے جیل ٹرائل پر کوئی اعتراض نہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ وزارت قانون نے تو جیل ٹرائل کا این او سی جاری کیا،ٹرائل جیل میں چلانے سے متعلق اجازت دینے کا اختیار کس کے پاس ہے؟
جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ وزارت قانون نے سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر جیل ٹرائل کیلئے خط لکھا، چیئرمین پی ٹی آئی کو اس دوران اٹک سے اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا،خصوصی عدالت نے شاہ محمود قریشی کے بچوں کی جیل سماعت میں موجودگی کی درخواست خارج کر دی،2 اکتوبر کو سائفر کیس کا چالان عدالت میں پیش کیا گیا،اگلے روز ایک دستاویز سامنے آیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی سیکیورٹی کیلیے جیل ٹرائل کیا جا رہا ہے
عدالت نے کہاکہ بعد میں جاری ہونے والے نوٹیفکیشنز سے متعلق سنگل بنچ کے فیصلے میں کیا لکھا گیا؟، جس پر وکیل نے بتایاکہ سنگل بنچ کے فیصلے میں بعد میں جاری ہونے والے نوٹیفکیشنز سے متعلق کچھ نہیں لکھا گیا،وزارت قانون کے بعد کے نوٹیفیکیشنز بھی پہلے نوٹیفکیشن کا تسلسل ہے،جیل کے ایک چھوٹے سے کمرے میں چیئرمین پی ٹی آئی کا ٹرائل کیوں ہو رہا ہے؟، پراسیکیوشن کو اسک ی کوئی ٹھوس وجہ بیان کرنا ہو گی،
عدالت نے کہاکہ کیا ڈویژن بنچ وزارت قانون کے بعد میں جاری ہونے والے نوٹیفکیشنز کو دیکھ سکتا ہے،کیا عدالت کو آپ کو بعد میں جاری ہونے والے نوٹیفکیشنز چیلنج کرنے کا موقع نہیں دینا چاہیے، انٹراکورٹ اپیل تو سنگل بنچ کی سماعت کا ہی تسلسل ہوتا ہے،
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے کہاکہ اس نکتے پرعدالت کی معاونت کریں،اس کیس میں کتنے گواہوں کے بیانات قلمبند ہو چکے ہیں؟ جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ آج تین گواہ پیش کئے گئے لیکن ابھی تک بیان ریکارڈ نہیں ہو سکے،جیل میں ایک ہال ہے کرسیاں لگی ہوئی ہیں کوئی مسئلہ نہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ آپ کیلیے تو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا،اگر شہری جیل ٹرائل دیکھنا چاہتے ہیں تو ان پر پابندی کیوں ہے؟اور اگر ملزم کی سیکیورٹی کا مسئلہ ہے تو سیکیورٹی تھریٹ کی جگہ کوئی بھی کیسے داخل ہو سکتا ہے؟،ہم نے جیل کے دورے کے دوران وہاں ایک بڑا ہال دیکھا تھا،
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ سائفر جیل ٹرائل میڈیا ، فیملی ، جنرل پبلک اگر دیکھنا چاہے تو ان کو اجازت ہونی چاہیے،سب دیکھیں گے کہ اس کیس میں جرم موجود ہی نہیں، چیئرمین پی ٹی آئی پر سائفر کا متن پبلک کرنے کا الزام ہے،سائفر کی کاپی کو چالان کا حصہ ہی نہیں بنایا گیا،چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے سائفر کیس کے اوپن ٹرائل کی استدعا کرتے ہوئے کہاکہ ستر سال پہلے جو ہوتا رہا وہی کچھ آج بھی ہو رہا ہے،ہمیں اب اس سب کو چھوڑ کر آگے بڑھنا چاہئے،
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ اب ٹیکنالوجی کا دور ہے وقت بدل چکا ہے،وکیل نے کہاکہ چیئرمین پی ٹی آئی کو ایف ایٹ کچہری میں طلب کیا گیا تو ہم نے مقام تبدیلی کی درخواست دی،اہم سیاسی شخصیت کیلئے ایف ایٹ کچہری میں پیش ہونے پر شدید سیکیورٹی خدشات تھے،ہماری درخواست پر عدالت کا مقام تبدیل کر کے جوڈیشل کمپلکس منتقل کیا گیا،جیل ٹرائل کی محض ایک وجہ چیئرمین پی ٹی آئی کی سیکیورٹی کو قرار دیا گیا،محض سیکیورٹی کو وجہ بنا کر جیل ٹرائل نہیں کیا جا سکتا،
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیاکہ اٹارنی جنرل صاحب آپ آج ہی دلائل دینا چاہتے ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ مجھے کچھ وقت دیدیا جائے آئندہ سماعت پر دلائل دونگا،
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ یہ عدالت چاہتی ہے کہ اس کیس کا فیصلہ جلد کر دیا جائے،بیرسٹر سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ عدالت جیل ٹرائل پر حکمِ امتناعی جاری کر دے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ اٹارنی جنرل کو سن لیں، ابھی حکم امتناعی جاری نہیں کرینگے،اٹارنی جنرل نے عدالت کی آبزرویشنز اور آپ کے تحفظات بھی سن لیے ہیں،
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اٹارنی جنرل سے کہاکہ اٹارنی صاحب غیر مناسب انداز میں ٹرائل آگے نہ بڑھایا جائے ،جس پراٹارنی جنرل منصوراعوان نے کہاکہ میں یقینی بناؤں گا کہ ملزم کے حقوق متاثر نہ ہوں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ انصاف نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتا ہوا دیکھائی بھی دینا چاہیے،عدالت نے کیس کی مزید سماعت منگل تک کیلیے ملتوی کردی۔