اسلام آباد: سپریم کورٹ میں بلوچستان میں مردم شماری کے خلاف اپیل پر جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ حکومت نے مشترکہ مفادات کونسل کا فیصلہ چیلنج نہیں کیا،انفرادی درخواستیں سننے سے تو پنڈورا باکس کھل جائے گا،مشترکہ مفادات کونسل خصوصی آئینی باڈی ہے جس میں پالیسی معاملات طے ہوتے ہیں،پالیسی معاملات میں مداخلت کوئی فرد کر سکتا ہے نہ ہی عدالت۔
سپریم کورٹ میں بلوچستان میں مردم شماری کے خلاف اپیل پر سماعت ہوئی، جسٹس اعجازالاحسن کی براہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی،جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ بلوچستان کی آبادی 2017کی مردم شماری کے مطابق کتنی تھی؟کامران مرتضیٰ نے کہاکہ بلوچستان میں امن وامان کی خراب صورتحال تھی، 2017میں مردم شماری نہیں ہوئی،موجودہ مردم شماری میں بلوچستان کی آبادی سوا کروڑ ہے ،ہمارے حساب سے بلوچستان کی اصل آبادی اس وقت 2کروڑ سے زیادہ ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کامران مرتضیٰ سے استفسار کیا کہ آپ کے اس حساب کی بنیاد کیا ہے؟وکیل کامران مرتضیٰ نے کہاکہ ادارہ شماریات کے اعدادوشمار پرانحصار کررہا ہوں،ادارہ شماریات نے سی سی آئی میں اچانک بلوچستان کی آبادی کا ایک عدد رکھ دیا جو اصل نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ سی سی آئی کے فیصلے کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس دیکھ سکتا ہے عدالت نہیں،جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ حکومت نے مشترکہ مفادات کونسل کا فیصلہ چیلنج نہیں کیا،انفرادی درخواستیں سننے سے تو پنڈورا باکس کھل جائے گا،مشترکہ مفادات کونسل خصوصی آئینی باڈی ہے جس میں پالیسی معاملات طے ہوتے ہیں،پالیسی معاملات میں مداخلت کوئی فرد کر سکتا ہے نہ ہی عدالت۔
کامران مرتضیٰ نے کہاکہ میں صوبے کے شہری کی حیثیت سے غلط مردم شماری کو چیلنج کرنے کا حقدار ہوں،آبادی کے مطابق بلوچستان کی 10نشستیں قومی اسمبلی میں بڑھنی چاہئیں،
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان کو نوٹس جاری کردیا،عدالت نے کہاکہ مردم شماری کا معاملہ کس آئینی شق یا قانون کے تحت مشترکہ مفادات کونسل میں جاتا ہے ؟مردم شماری سے متعلق قانونی معاملات پر عدالت کی معاونت کی جائے،عدالت نے قانونی سوالات پر معاونت کیلئے وکیل کامران مرتضیٰ کو ایک ہفتے کا وقت دیدیا،عدالت نے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی ۔