واٹر کارپوریشن میں من پسند افسران کو نوازنے کی تیاری

کراچی (رپورٹ : سید نبیل اختر) واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن میں من پسند افسران کو ترقی دینے کی تیاری کرلی گئی۔ بعض افسران سے چیئرمین دفتر کا عملہ ترقی دلانے کے نام پر لاکھوں روپے بٹورنے کی کوشش کرنے لگا۔ میرٹ کے برخلاف ترقی کیلئے سفارش بھی لگوائی جارہی ہے۔واٹر کارپوریشن میں موجود سندھ حکومت کی اسامی کے نام پر بھی آؤٹ آف ٹرن نوازنے کا منصوبہ تیار کرلیا گیا ہے۔ عملدرآمد سے حقدار محروم ہوجائیں گے ۔غیر قانونی ترقی دینے کے خلاف انیس گریڈ کے افسر نے ایم ڈی کو قانونی نوٹس بھیج دیا ۔ تفصیلات کے مطابق کراچی واٹرکارپوریشن کے ملازمین کی ڈی پی سی کے بعد افسران کی ترقیاں بھی متناذعہ بن رہی ہیں جس میں بعض من پسند افسران کو آؤٹ آف ٹرن نوازنے کی تیاری کرلی گئی ہے ، یہ اسامیاں سترہ سے بیس گریڈ کے افسران کی ہیں جنہیں ڈی پی سی کے ذریعے ترقی دی جائے گی ، ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ ڈی پی سی میں بیس سے پچیس افسران کو اگلے گریڈ میں ترقی دی جائے گی تاہم ترقی کے منتظر افسران کی تعداد کہیں زیادہ ہے ، معلوم ہوا ہے کہ ڈیپارٹمنٹل پروموشن کمیٹی کے سربراہ تو موجودہ ایم ڈی سید صلاح الدین ہیں تاہم اس متعلق تمام معاملات چیئرمین واٹر کارپوریشن مرتضیٰ وہاب کے دفتر میں ہورہے ہیں ، جہاں موجود ایچ آر اور چیئرمین دفتر کا عملہ ترقی دلانے کے نام پر افسران سے بھاری رقوم کی فرمائشیں کررہا ہے ، ذرائع کا کہنا ہے کہ ہر ایک افسر سے لاکھوں روپے بٹورنے کی تیاری کی گئی ہے جس میں حقدار افسران بھی شامل ہیں ، دوسری جانب سندھ حکومت کی واٹر بورڈ میں موجود اسامی ڈی ایم ڈی ایچ آر ڈی کیلئے پہلے ہی غیر قانونی ترقی پانے والے افسر امین تغلق کو گریڈ بیس میں ترقی دینے کی تیاری کی گئی ہے ، ان کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ وہ 1987 میں 5 گریڈ میں واٹر بورڈ میں بھرتی ہوئے اور 1989 میں ڈیپوٹیشن پر کے ایم سی چلے گئے ، 2010 میں ان کی واپسی ہوئی تو وہ گریڈ 17 کے افسر تھے ، اس وقت ان کے بڑے بھائی شعیب تغلق ڈی ایم ڈی ایچ آر ڈی تھے تو انہیں آؤٹ آف ٹرن گریڈ اٹھارہ میں ترقی دے دی گئی ، قانون کے مطابق انہیں کے ایم سی سے پیرنٹ محکمہ واپس آنے پر گریڈ 5 میں جوائن کرنا تھا اور ڈی پی سے کے مرحلے سے گزر کر اپنی سنیارٹی کے لحاظ سے ترقی حاصل کرنا تھی تاہم شعیب تغلق کے بھائی ہونے کی وجہ سے انہیں پہلے اٹھارہ اور پھر انیس گریڈ میں ترقی دی گئی اور اب مذکورہ ڈی پی سی میں مستقبل کے ڈی ایم ڈی ایچ آر ڈی کے لیئے انہیں بیس گریڈ میں ترقی دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ ڈی ایم ڈی ایچ آر آپشن نائن کے تحت سندھ گورنمنٹ کی اسامی ہے،اس سے قبل مذکورہ پوسٹ کیلئے نسیم اور شعیب تغلق کو بھی ترقی کی منظوری نہیں ملی تھی ۔دوسری جانب گریڈ بیس کے افسر اکرم بلوچ کی ایم ڈی اے سے واٹر کارپوریشن واپس آنے پر انہیں سترہ گریڈ میں تعینات کیا گیا جس گریڈ میں ڈیپوٹیشن پر ایم ڈی اے گئے تھے لیکن کے ایم سی سے واپس آنے والے بااثر افسر نجیب احمد کو ڈی پی سی قبل ہی گریڈ سترہ کے بجائے گریڈٖ بیس میں تعینات کردیا گیا جبکہ ان کے حوالے سے عدالے کے واضح احکامات تھے کہ انہیں گریڈ 17 میں تعینات کیا جائے، ایم ڈی سید صلاح الدین اچھی شہرت رکھتے ہیں تاہم افسران کی ترقی کے معاملے میں بے ضابطگیاں سامنے آرہی ہیں جس پراکرم بلوچ نے انہیں قانونی نوٹس بھیج دیا ہے ،سپریٹنڈنگ انجینئر محمد اکرم بلوچ نے اپنے وکیل نہال خان لاشاری ایڈووکیٹ کے ذریعے ایم ڈی/ سی ای او واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کو بھیجے گئے نوٹس میں کہا ہے کہ آپ کی سربراہی میں ڈپارٹمنٹل پروموشن کمیٹی ون تشکیل دی گئی تھی جس کی زمہ داری بہتر رویہ اور خدمات سر انجام دینے والے قابل افراد کو کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے قوانین کے تحت ترقی دینا تھا ، میرا کلائنٹ محمد اکرم 25 اکتوبر 1994 میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں گریڈ 17 پر بطور اسسٹنٹ ایگزیکٹیو انجینئر بھرتی ہوا تھا اور اس کا 15 دسمبر 1997 کو ایم ڈی اے میں تبادلہ کردیا گیا تھا ، ایم ڈی اے میں ترقی پاتے ہوئے میرا کلائنٹ گریڈ 20 تک پہنچ گیا مگر بعد میں سپریم کورٹ کے ایک حکمنامے پر محمد اکرم کو واپس کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں بطور اسسٹنٹ ایگزیکٹیو انجینئر تعینات کردیا گیا پھر وہاں اس نے گریڈ 17 پھر 18 اور 19 میں ترقی حاصل کی اب جبکہ وہ گریڈ 20 پر ترقی کا اہل ہے اور سنیارٹی میں بھی تیسری پوزیشن پر ہے۔ لیگل نوٹس میں مزید کہا گیا کہ نجیب احمد کو گریڈ 17 کی اسسٹنٹ ایگزیکٹیو انجینئر کی پوسٹ پر ایڈ ہاک بنیادوں پر تعینات کیا گیا تھا جبکہ آئینی درخواست نمبر 3664/2022 کے پیراگراف نمبر 10 میں وہ خود کہتا ہے کہ اس کو کے ایم سی میں میئر کے ذریعے ریگولرائز کیا گیا تھا ، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسا ملازم جس کو ایڈہاک بنیادوں پر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں بھرتی کیا جائے، اس کو کے ایم سی کیسے ریگولرائز کرسکتا ہے، نجیب احمد کا سروس ریکارڈ دیکھا جائے تو مشاہدے میں آیا ہے کہ یہ وہ آف شور شخص ہے جس نے اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے آؤٹ آف کیڈر ترقی پائی جو کہ انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے، نجیب احمد دوہری شہریت رکھتا ہے اور وہ کینیڈین پاسپورٹ پر کینیڈا کا سفر کرتا رہتا ہے، جب اسے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ بھیجا گیا تو اسے گریڈ 20 میں چیف انجینئر تعینات کیا گیا جو کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی ہے،اسے ایک پسندیدہ بچے کی طرح رکھا جارہا ہے لہذا اسے ترقی نہ دی جائے، سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں اسے پہلے گریڈ 17 سے 18 پھر گریڈ 18 سے 19 اور بعد میں گریڈ 20 میں ترقی دی جائے مگر اسے ڈائریکٹ گریڈ 20 میں ترقی دینا قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اس لیگل نوٹس کے ذریعے اطلاع دی جاتی ہے کہ نجیب احمد کو سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں ترقی دی جائے جبکہ اس کا سروس ریکارڈ بھی دیکھا جائے اگر ایسا نہ کیا گیا تو آئینی درخواست کے ذریعےلیگل فورم سے رجوع کیا جائے گا۔