فائل فوٹو
فائل فوٹو

وزارت دفاع نے سویلین کا ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دینے کے فیصلہ چیلنج کر دیا

اسلام آباد: وزارت دفاع نے سویلین کا ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل دائرکر دی۔

سندھ حکومت کے بعد وزارت دفاع اور بلوچستان حکومت نے بھی خصوصی عدالتوں میں سویلنز کا ٹرائل روکنے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔

وزارت دفاع کی درخواست میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ 23 اکتوبر کے فیصلے کو کالعدم قرار دے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی کالعدم قرار دی گئی دفعات بھی بحال کی جائیں۔ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے جن درخواستوں پر فیصلہ دیا وہ ناقابل سماعت تھیں۔

وزارت دفاع کی انٹرا کورٹ اپیل میں مزید کہا گیا کہ آرمی ایکٹ کی کالعدم قرار دی گئی سیکشن 59(4) بھی بحال کی جائے۔ اپیلوں پر حتمی فیصلے تک فوجی عدالتوں میں ٹرائل روکنے کے خلاف حکم امتناعی کی بھی استدعا کی گئی ہے۔

بلوچستان حکومت

دوسری جانب بلوچستان حکومت نے بھی خصوصی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔

بلوچستان حکومت نے درخواست میں استدعا کی ہے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی کالعدم دفعات بحال کی جائیں، اور اپیلوں پر فیصلےتک فیصلہ معطل کیا جائے۔

درخواست میں بلوچستان حکومت نے مؤقف پیش کیا ہے کہ سپریم کورٹ نے ناقابل سماعت درخواستوں پر حکم جاری کیا، سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین اور قانون سے متصادم ہے۔

سندھ حکومت

گزشتہ روز نگراں سندھ حکومت نے بھی سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

سندھ حکومت نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں فوجی عدالتوں میں سویلنز کا ٹرائل روکنے کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی، اور اپیل پر فیصلے تک سپریم کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی بھی استدعا کی۔

سندھ حکومت کی درخواست میں کہا گیا کہ فوجی تنصیبات پر حملوں کے ملزمان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہی ہونا چاہیے، سپریم کورٹ نے قانون اور حقائق کا درست جائزہ نہیں لیا۔

درخواست میں سندھ حکومت نے استدعا کی کہ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی کالعدم دفعات بحال کی جائیں۔

نگراں صوبائی حکومت نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ملزمان نے خود درخواست دی کہ ان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہی کیا جائے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 23 اکتوبر کو فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دیا تھا۔اور 6 صفحات پر مشتمل مختصر تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے لکھا کہ آرمی ایکٹ کی سیکشن ڈی ٹو کی ذیلی شقیں ایک اور دو کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔

تحریری فیصلے میں آرمی ایکٹ کی سیکشن 59 (4) بھی کالعدم قرار دے دی گئی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ فوج کی تحویل میں موجود تمام 103 افراد کے ٹرائل آرمی کورٹس میں نہیں ہوں گے، 9 اور 10 مئی کے واقعات کے تمام ملزمان کے ٹرائل متعلقہ فوجداری عدالتوں میں ہوں گے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ہونے والے کسی ٹرائل کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی۔

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ خصوصی عدالتوں میں ٹرائل بارے میں فیصلہ پر تمام ججز متفق ہیں، آرمی ایکٹ کی دفعات کالعدم ہونے پر جسٹس یحییٰ آفریدی کا فیصلہ محفوظ ہے۔