شدید مہنگائی میں تو ستر ہزار کا فرش بننا ہی ممکن نہیں، فائل فوٹو
شدید مہنگائی میں تو ستر ہزار کا فرش بننا ہی ممکن نہیں، فائل فوٹو

سندھ میں ہزاروں سیلاب متاثرین تاحال دربدر

نواز طاہر :
سندھ میں ہزاروں سیلاب متاثرین تاحال بے گھر اور امداد کے منتظر ہیں۔ یہ متاثرین سڑکوں، کھلے میدانوں یا اجڑے گھروں میں بے بسی و بے کسی کی تصویر بنے امداد کے منتظر ہیں۔ جبکہ موسم سرما شروع ہوچکا ہے۔ جبکہ حکومت کی طرف سے کیے جانے والے اعلانات اور وعدوں پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی ان کی کیلئے اعلان کردہ امدادی پیکج قصہ پارینہ بن گئے ہیں۔ اب اس معاملے کو دبئی میں امیر ممالک کے اجلاس کے موقع پر احتجاج کی صورت میں اٹھانے پر غور کیا جارہا ہے۔

یاد رہے کہ سندھ میں گزشتہ سال شدید بارشوں اور تباہ کن سیلاب سے اکیس لاکھ افراد متاثر اور گھر تباہ ہوئے تھے۔ فصلیں اجڑ گئی تھیں اور کئی ماہ تک پانی گلیوں، بازاروں اور کھیتوں میں کھڑا رہا تھا۔ ایک سال گزرنے کے باوجود ان اکیس لاکھ میں سے صرف پانچ فیصد متاثرین کو تھوڑی بہت سرکاری امداد ملی۔

متاثرین کے مطابق بے گھر ہونے والوں کو ایک کمرا بنانے کیلئے تین لاکھ روپے دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ایک سال میں صرف ضلع شکار پور میں نوے ہزار میں سے پانچ ہزار متاثرین کو گھروں کی تعمیر کیلئے فی کس پچھتر ہزار روپے دیئے گئے۔ باقی اب تک امداد کے منتظر ہیں۔ جبکہ اسپتالوں، پلوں، اسکولوں اور سڑکوں کی پوری طرح مرمت بھی نہیں کرائی گئی۔ سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں اسپتالوں اور صحت کی سہولیات کی عدم موجودگی اور سڑکوں پر ٹینٹ لگا کر رہنے کی وجہ سے متاثرین میں ملیریا اور جلد کی بیماریوں نے وبائی صورتحال اختیار کرلی ہے۔ زیرزمین پانی خراب ہونے سے گردوں کی بیماریاں عام ہوگئی ہیں۔

شکار پور کی گڑھی یاسین کونسل کے ایک گاؤں میں چھ افراد گردوں کی بیماری سے انتقال کر گئے ہیں اور متعدد ڈائلسز پر چل رہے ہیں۔ مجیب پیرزادو کے مطابق سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو بھی لاڑکانہ کو اپنا ضلع کہتے ہیں۔ وہاں بھی اسّی ہزار ہزار خاندان بے گھر ہوئے۔ جن میں سے صرف چھ ہزار کو گھروں کی تعمیر کیلئے پہلی قسط ملی۔ جبکہ ورلڈ بینک نے بیس دسمبر سنہ دو ہزار بائیس کو سندھ کیلئے ایک ارب انہتر کروڑ ڈالر کی امداد کی منظوری دی تھی۔

اسی طرح جنیوا میں ہونے والے اجلاس میں امیر ممالک نے دس ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا۔ حالانکہ رواں سال نو جنوری کے اس اجلاس میں پاکستان نے آٹھ ارب ڈالر کی اپیل کی تھی۔ جس سے بڑھ کر دس ارب ڈالر امداد کے و عدے کئے گئے۔ لیکن آج تک امداد کی فراہمی کا طریقِ کار آج تک طے نہیں ہوا۔

لاڑکانہ کے مجیب پیرزادو کے مطابق سیلاب متاثرین کی امداد کیلیے ایک سے زائد سروے کیے گئے اور گھر بنانے کیلئے جو تھوڑے بہت پیسے ایک این جی او کے ذریعے دیئے جانے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ اس کے مطابق فی خاندان پہلی قسط پچھتر ہزار روپے ملنا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی شرط ہے کہ ان پیسوں سے گھر کی تعمیر کے دوران گھر کا فرش گلی سے پانچ فٹ اونچا ہونا چاہیے۔ جبکہ شدید مہنگائی میں تو ستر ہزار کا فرش بننا ہی ممکن نہیں۔ باقی تعمیر کن پیسوں سے ہوگی؟ اس لئے اب ایک ہنگامی نئے سروے کی ضرورت ہے۔ جس میں موجودہ مہنگائی کو سامنے رکھ کر تعمیراتی لاگت اور فراہم کی جانے والی امداد کا تعین کیا جائے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اب جبکہ سردی شروع ہو گئی ہے تو یہ سوچ کر ہی کانپ رہے ہیں کہ سیلاب متاثرین کا وقت کیسے کٹے گا۔ نہ صرف سندھ حکومت بلکہ پی ڈی ایم کی حکومت نے بھی سیلاب متاثرین کی طرف توجہ نہیں دی۔ دوسری جانب کسان رابطہ کمیٹی کے رہنما فاروق طارق نے بتایا کہ چونکہ پاکستان کی حکومت اور امیر ممالک دونوں ہی سیلاب متاثرین کی بحالی کو فراموش کرچکے ہیں۔ لہذا وہ اس ماہ کے آخر میں دبئی میں کھل کر امیر ممالک کے اجلاسوں کا گھیراؤ کریں گے۔ جس میں مطالبہ کیا جائے گا کہ اپنا وعدہ پورا کرو۔