سید حسن شاہ :
سندھ ہائیکورٹ کے 4 شہروں کے بنچز کی عدالتوں میں 83 ہزار سے زائدکیسز زیر التوا ہیں۔ سیاست دانوں و سرکاری افسران کے کیسز بھی زیر التوا مقدمات میں شامل ہیں۔ قانونی ماہرین نے زیر سماعت مقدمات زیادہ ہونے کی وجہ عدالتوں کی کمی، خالی سیٹوں پر نئے ججز کی عدم تعیناتی اور سماعتیں ملتوی ہونا قرار دیا ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ ہائیکورٹ میں عدالتوں کی تعداد بڑھائی جائے اور خالی سیٹوں پر نئے ججز تعینات کیے جائیں۔
عدالت عالیہ سندھ میں کراچی، حیدرآباد، سکھر اور لاڑکانہ کے الگ الگ بنچز قائم ہیں۔ جو روزانہ شہریوں و ملزمان کی کرمنل و سول سمیت دیگر اپیلوں اور درخواستوں کی سماعت کرتے ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں اس وقت 83 ہزار 745 کیسز زیر التوا ہیں۔ جبکہ گزشتہ سال زیر التوا مقدمات کی تعداد85 ہزار 781 تھی۔ ہائیکورٹ میں ہر ماہ تقریبا 1800 سے 1900 نئے مقدمات داخل کیے جاتے ہیں۔
جبکہ ہر ماہ تقریبا اتنے ہی مقدمات نمٹائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ سندھ ہائیکورٹ کراچی، سکھر، حیدرآباد اور لاڑکانہ بنچز کی عدالتوں میں یومیہ تقریبا 1186 مقدمات سنے جاتے ہیں۔ جن میں سے تقریبا 873 مقدمات ملتوی و ڈسچارج ہو جاتے ہیں۔ عدالتوں کی کاز لسٹ کے مطابق سندھ ہائیکورٹ کے پرنسپل سیٹ کراچی کی عدالتوں میں یومیہ تقریبا 630 کیسز سنے جاتے ہیں اور 525 مقدمات ملتوی و ڈسچارج ہوتے ہیں۔
سکھر بنچز کی عدالتوں میں یومیہ 300 کیسز سنے اور 240 مقدمات ملتوی و ڈسچارج ہوتے ہیں۔ حیدرآباد بنچز کی عدالتوں میں یومیہ 147 کے قریب کیسز سنے، جبکہ 19 مقدمات ملتوی و ڈسچارج ہوتے ہیں۔ لاڑکانہ بنچز کی عدالتوں میں یومیہ 109 مقدمات سنے جاتے اور 91 کے قریب کیسز ملتوی و ڈسچارج ہوجاتے ہیں۔
زیر التوا کیسز میں مجرمان کو ماتحت عدالتوں سے ملنے والی سزاؤں کے خلاف اپیلیں، ضمانتوں کی درخواستیں، لاپتا افراد کی بازیابی، زمینوں و جائیداد کے تنازعہ، بٹوارے، کھیلوں کے میدان و زمینوں پر قبضے، غیر قانونی تعمیرات، تجاوزات، شہریت کے مسائل، اضافی بلز وصولی، ملازمتیں نہ ملنے اور فارغ کیے جانے، ہرجانوں کے دعوے، تقرریوں، تنزلیوں و تبادلوں سے متعلق درخواستیں، عدالتی احکامات پر نظر ثانی، توہین عدالت کی درخواستیں، مجرمان کی بریت کیخلاف پراسیکیوشن کی اپیلیں، معاوضوں کی ادائیگیوں، متبادل رہائش کی فراہمی، مختلف کاموں کے ٹھیکوں سے متعلق درخواستیں، مختلف محکموں کی جانب سے شکایات نہ سننے، تحفظ فراہمی، صوبائی و ضلعی انتظامیہ کی جانب سے علاقوں میں پانی، صحت و تعلیم کے مسائل، سڑکوں و سیوریج کے مسائل پر شہریوں کی درخواستوں سمیت دیگر شامل ہیں۔
ان کے علاوہ سندھ ہائیکورٹ میں سیاست دانوں و سرکاری عہدیداران کے کیسز بھی زیر سماعت ہیں۔ جن میں کے الیکٹرک بلوں میں میونسپل چارجز وصولی کے خلاف جماعت اسلامی کی درخواست، پی ٹی آئی سندھ کے صدر حلیم عادل شیخ کی درخواست، سندھ میں بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق ایم کیو ایم کی درخواست، پاکستان اسٹیل مل میگا کرپشن میں سابق چیئرمین معین آفتاب شیخ کی بریت کیخلاف پراسیکیوشن کی اپیل، پی ٹی آئی رہنما اسد عمر کی توہین الیکشن کمیشن کے نوٹس کیخلاف درخواست سمیت دیگر کیسز شامل ہیں۔
شہریوں کی جانب سے متعدد درخواستوں میں صوبائی، شہری و ضلعی محکموں اور انتظامیہ کی جانب سے اپنی درخواستوں میں فریق بنایا گیا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ مختلف محکموں کی جانب سے وقت پر جوابات جمع نہیں کرائے جاتے اور مہینوں تاخیر کی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے بھی کئی مقدمات التوا کا شکار ہیں۔ سندھ ہائیکورٹ میں 13 سال پرانا سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کیس کے ملزمان کی بریت کیخلاف اپیل بھی زیر سماعت ہے۔
عدالت عالیہ میں میر مرتضی بھٹو کے ملازم نور محمد گوگا نے ملزموں کی بریت کیخلاف 2010 میں اپیل دائر کی تھی۔ جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ 20 ستمبر 1996ئ کو میر مرتضی بھٹو اور ان کے ساتھیوں کو بیدردی سے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ دسمبر 2009 میں ماتحت عدالت نے 20 پولیس افسران کو بری کردیا تھا۔ ماتحت عدالت نے پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے مرتضی بھٹو اور ان کے ساتھیوں کو بھی بیگناہ قرار دیا تھا۔
اسی عدالت نے سابق ڈی آئی جی پولیس شعیب سڈل، سابق آئی جی واجد درانی، سابق ایڈیشنل آئی جی پولیس شاہد حیات اور دیگر کو بھی بیگناہ قرار دے دیا تھا۔ جبکہ مرتضی بھٹو قتل کیس کے ملزم انسپکٹر حق نواز سیال نے خودکشی کرلی تھی۔ درخواست گزار کی جانب سے استدعا کی گئی تھی کہ ماتحت عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔
اس اپیل کی گزشتہ سماعت پر ہائیکورٹ نے متعلقہ ایس ایس پی کو ملزمان کو نوٹس کی تعمیل کرانے کی ہدایت کی ہے۔ یہ بھی ہدایت دی گئی کہ متعلقہ ایس ایس پی اس بات کو یقینی بنائیں کہ متعلقہ لوگوں کو نوٹس مل جائیں۔ انتقال کرنے والے افراد سے متعلق تفتیشی افسر مکمل رپورٹ جمع کروائیں۔ دیگر نامزد افراد کو ہر صورت آئندہ سماعت پر پیش کیا جائے۔
اس حوالے سے کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر عامر سلیم ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ہائیکورٹ کے زیر التوا مقدمات کی تعداد کم کرنے کیلئے سب سے پہلے ججز کی تعداد بڑھانی چاہیے۔ ہائیکورٹ میں ججز کی تعداد کم ہے اور کئی سیٹیں خالی پڑی ہیں۔ ان پر نئے ججز تعیناتی کیے جائیں۔
انہوں نے بتایا کہ اوریجنل سائیڈ پر بھی درخواستوں کو ایک سے دو سال سروس پر لگ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ 5 سے 6 ماہ کی تاریخیں لگ جاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے مقدمات زیر التوا رہتے ہیں۔ سب سے پہلے پرانے زیر سماعت مقدمات کی تعداد کم کی جائے۔ سینئر وکیل خرم شہزاد ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ مقدمات زیر التوا رہنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ سندھ ہائیکورٹ میں ججز کی کمی ہے۔ عدالتوں کی تعداد بڑھانے کی بھی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ پرانے مقدمات کو ترجیحی بنیادوں پر سنا جائے۔ معقول وجہ کے بغیر کسی بھی مقدمہ کی سماعت ملتوی نہ کی جائے۔ روزانہ کی کاز لسٹ میں اتنے مقدمات لگائے جائیں جتنے ججز باآسانی سن سکیں۔ کیونکہ وقت کی کمی سے کچھ مقدمات رہ جاتے ہیں۔ کاز لسٹ میں اگر ایک بار کیس لگ جائے تو اسے ڈسچارج کرنے کی وجہ نہیں ہونی چاہیے۔ بلاوجہ کوئی فریق یا ان کا وکیل پیش نہ ہو اور کیس کو طول دینے کی کوشش کرے تو ان پر جرمانہ ہونا چاہیے تاکہ زیر سماعت مقدمات کی تعداد کم ہو سکے۔