سانسں اور ناک کے مریض ماسک لگائیں، ماہرین طب، فائل فوٹو
 سانسں اور ناک کے مریض ماسک لگائیں، ماہرین طب، فائل فوٹو

فضائی آلودگی نے کراچی کو بھی لپیٹ میں لے لیا

اطہر فاروقی :

لاہور کے بعد کراچی کو بھی فضائی آلودگی نے لپیٹ میں لے لیا ہے۔ بدھ کے روز فضائی آلودگی میں لاہور دوسرے اور کراچی تیسرے نمبر پر پہنچ گیا۔ کراچی کی فضا میں آلودہ زرات کی مقدار 230 پرٹیکیولیٹ میٹر ریکارڈ کی گئی۔ 150سے 200 درجے تک آلودگی مضر صحت اور 200 سے 300 درجے تک آلودگی انتہائی مضر صحت قرار دی گئی ہے۔

ماہرین ماحولیات کے بقول سردیوں میں ہوا الٹی چلتی ہے۔ جس میں دیگر شہروں سے بھی آلودگی ہوا کے ساتھ کراچی پہنچ جاتی ہے۔ ماہرین طب کے بقول فضائی آلودگی سے پاکستان میں لاکھوں افراد مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ جن میں سانس کی نالیوں میں سوزش، دمہ، سینے کا انفیکشن، دل کے امراض، بلڈ پریشر اور فالج وغیرہ شامل ہیں۔ دمہ اور سانس کے مریض خصوصی احتیاط کریں۔ سانسں اور ناک کے امراض میں اضافے کے پیش نظر ماہرین طب نے ماسک کے لگانے کی ہدایت کی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں ہر سال موسم سرما میں فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ جس کی لپیٹ میں سر فہرست لاہور رہتا ہے۔ رواں سال 18 نومبر کو فضائی آلودگی میں کراچی پہلے نمبر پر پہنچ گیا تھا۔ جبکہ بدھ کے روز لاہور دوسرے اور کراچی تیسرے نمبر پر رہا۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے شہریوں کی صحت بھی متاثر ہو رہی ہے۔

گزشتہ روز (بدھ کو) کراچی کی فضا میں آلودہ زرات کی مقدار 230 پرٹیکیولیٹ میٹر ریکارڈ کی گئی۔ جبکہ لاہور میں آلودگی 222 پرٹیکیولیٹ میٹر کی سطح پر پہنچ گئی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ فضا میں آلودگی 150 سے 200 درجے تک پہنچ جائے تو وہ مضر صحت ہے۔ 200 سے 300 درجے تک آلودگی انتہائی مضر صحت۔ جبکہ 300 سے زائد درجہ خطرناک آلودگی کو ظاہر کرتا ہے۔ تاہم کراچی میں 200 سے 300 درجے کے درمیان آلودگی انسانی صحت کیلیے انتہائی مضر ہے۔

کراچی میں اس وقت فضا کا معیار چیک کرنے والا کوئی سرکاری میکانزم موجود نہیں۔ شہر میں 3 مقامات پر فضا کا معیار جانچنے والے آلات کام کر رہے ہیں۔ جن میں ایک کراچی پریس کلب کے نزدیک۔ دوسرا امریکی قونصل خانے اور تیسرا ملیر کنٹونمٹ کے علاقے میں ہے۔ انہی سے اعدادوشمار جمع کرکے فہرست تیار کی جاتی ہے۔ فضا میں آلودگی کے باوجود سندھ انوائرنمینٹل پروٹیکشن ایجنسی(سیپا) نے نہ تو کبھی اپنے اعدادوشمارکا تجزیہ کیا اور نہ مستقبل میں فضائی آلودگی کے حوالے سے کوئی پیشگوئی کی اور نہ ہی آلودگی کم کرنے کے اقدام کرے۔

’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے ماہر ماحولیات نصر عثمانی نے بتایا کہ سردیوں میں بنسبت گرمیوں کے، ہوا الٹی چلتی ہے۔ جس کے سبب دیگر شہروں سے بھی آلودگی ہوا کے ساتھ کراچی پہنچ جاتی ہے۔ فضائی آلودگی کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ یہی ہے۔ ٹرانسپورٹ میں کئی حد تک اضافہ بھی ایک بڑی وجہ ہے۔

ایک سرکاری بس میں 50 افراد سفر کرتے ہیں۔ جبکہ کراچی میں ٹرانسپورٹ نظام بہتر نہ ہونے کی وجہ سے ان 50 افراد میں سے بیشتر کاروں یا موٹرسائیکل پر سفر کرتے ہیں۔ ایسے میں ایک سرکاری بس سے نکلنے والے دھویں کی جگہ 50 گاڑیوں کا دھواں فضا میں آلودگی زیادہ بڑھا دیتا ہے۔ ٹرانسپورٹ کے ساتھ صنعتی ایریا اور کراچی میں درختوں کی کٹنگ بھی ہے۔

شہر میں شروع ہونے والے مختلف منصوبوں میں ہزاروں درخت کاٹ دیے گئے۔ درخت جو آکسیجن بنانے اور ماحول صاف کرنے کا کام کرتے ہیں۔ وہ ختم ہو گئے۔ منصوبے مکمل نہ ہونے سے دھول مٹی بھی ہوا میں شامل ہوکرفضا کو مزید آلودہ کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’فضائی آلودگی سے بچنے کیلیے سب سے پہلے عوام کو آگاہی فراہم کرنا ہوگی کہ جتنا کم ہو سکے اپنی ٹرانسپورٹ کم استعمال کریں۔ حکومت بھی ٹرانسپورٹ کے شعبے کو بہتر بنائے۔ اس کے ساتھ تمام سرکاری ادارے جس میں محکمہ باغات، سندھ سالڈ بیسمٹ منیجنٹ، سیپا اور دیگر ادارے اپنے کام بہتر انداز میں کریں۔ زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں۔

ڈاکٹر رانا جواد اصغر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ فضا میں آلودگی کی 70 فیصد وجہ گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں ہے۔ جس سے مختلف بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ جن میں سانس کی نالیوں کی سوزش، دمہ، سینے کا انفیکشن، دل کے امراض، بلڈ پریشراورفالج کا حملہ وغیرہ شامل ہیں۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ دمہ اور سانس کے مریض خصوصی احتیاط کریں۔ سانسں اور ناک کے امراض میں مبتلا افراد ماسک لگائیں۔