اسلام آباد (اُمت نیوز) 10 دسمبر کو ہر سال انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے، 75 سال گزرنے کے باوجود بھی بھارت انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں میں سرفہرست ہے۔
1948 سے اب تک مظلوم کشمیری ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں اور 5 اگست 2019 کو ہندوستان نے آرٹیکل 370 کی تنسیخ سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کر دی جس کے بعد سے اگست 2019 کے بعد سے 1 ہزار سے زائد کشمیری شہید، ڈیڑھ سو خواتین زیادتی کا شکار جبکہ 200 بچے یتیم ہو گئے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے بعد سے اب تک 22 ہزار سے زائد گرفتاریاں اور 1200 املاک نذرِ آتش کر دی گئیں، ہندوستان میں مسلمانوں، عیسائیوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں پر زمین تنگ ہے۔
بھارت میں گزشتہ دو دہائیوں سے اب تک بھارت میں تقریباً 500 سے زائد مساجد اور مزارات کو شہید کیا جا چکا ہے، 6 دسمبر 1992 کو اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں انتہا پسند ہندوؤں نے بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا۔
2023 میں بھارت کی 23 ریاستوں میں عیسائیوں کے خلاف 400 تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے، 25 اگست 2008 کو ہندو انتہا پسندوں نے بی جے پی کے زیرِ حکومت ریاست اڑیسہ کے ضلع کندھمال میں سینکڑوں عیسائیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا ۔
چار دن تک جاری رہنے والے فسادات میں 600 عیسائی گاؤں اور 400 سے زائد چرچ نذرِ آتش کر ڈالے گئے اور صرف جنوری تا جون 2022 میں عیسائیوں کے خلاف 274 پرتشدد واقعات پیش آئے۔
گزشتہ 5 برسوں میں نچلی ذات کے خلاف ڈھائی لاکھ سے زائد نفرت انگیز جرائم رپورٹ، نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو صرف 2021 میں دلت ہندوؤں کے خلاف 60 ہزار سے زائد جرائم رپورٹ ہوئے، اوسطاً ہر 10 منٹ میں ایک دلت کے خلاف تشدد کا واقعہ پیش آتا ہے۔
ڈی ڈبلیو رپورٹ کے مطابق 2021 میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے 4 لاکھ سے زائد مقدمات درج کئے گئے، بھارت میں صحافت کا گلا گھونٹنے کے لئے انسدادِ دہشتگردی کے قوانین کا استعمال تشویشناک حد تک بڑھ چکا ہے۔
2020 میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکومتی جابرانہ ہتھکنڈوں سے تنگ آکر بھارت میں اپنا دفتر بند کر دیا تھا، 2022 میں آکسفیم اور 2023 میں مودی کے خلاف ڈاکومنٹری نشر کرنے پر بی بی سی انڈیا کے دفاتر پر بھی 4 روز تک چھاپے مارے گئے۔