لاہور: پاکستان کے معروف اور سینئیر صحافی عمران ریاض خان کا کہنا ہے کہ ’تکلیف زیادہ تب ہوتی ہے جب کوئی اپنا مارتا ہے۔اپنی رہائی کے بعد ایک یوٹیوب پوڈکاسٹ کیلئے دیے گئے پہلے انٹرویو میں عمران ریاض نے کہا کہ جب آپ کو پہلے دن میں ملا تو زندہ لاش کی طرح ہی تھا، اس سے بھی گئی گزری حالت میری رہی ہے۔
اپنے حراست کے دنوں کے حوالے سے پہلی بار گفتگو کرتے ہوئے عمران ریاض خان نے بتایا کہ (حراست کے دوران) یہ چیز مجھے زیادہ محسوس ہو رہی تھی کہ یار میں کوئی اس ملک کا غدار تو نہیں ہوں، میں نے اس ملک کے کوئی راز تو نہیں چرائے ہوئے، میں کوئی دشمن ملک کے ساتھ تو نہیں ملا ہوا، یا میں کوئی ایسی بات تو نہیں کر رہا جو میرے ملک اور اس کے نظریات کے خلاف ہے۔
انہوں نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں انتہائی مشکل سے بولتے ہوئے کہا کہ میں جو بات کر رہا تھا وہ اختلافِ رائے میں آسکتی ہے اور وہ بات کوئی بھی کسی سے بھی کر سکتا ہے۔ دورانِ گفتگو ان کی بولنے کے انداز میں کافی زیادہ لکنت محسوس ہوئی۔
کس یاد سب سے زیادہ آئی؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’یاد تو اللہ کی آئی سب سے زیادہ‘۔ لیکن اتنا لمبا عرصہ ہو تو دنیاوی رشتوں میں پھر ’باریاں لگتی ہیں‘۔ کبھی ماں کی یاد آتی ہے کبھی باپ کی یاد آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے والد کو جانتا ہوں مجھے پتا تھا کہ جب تک وہ مجھے ڈھونڈ نہیں لیتے چین سے نہیں بیٹھیں گے۔انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے بھی میرے لیے آواز اٹھائی میں ان سب کا شکر گزار رہوں گا۔
ان کا کہنا تھا ’رانا ثناء اللہ جب بہت مشکل وقت میں تھا تو میں نے ان کیلئے آواز اٹھائی تھی‘۔ مجھے امید تھی کہ رانا ثناء اللہ کچھ نہ بھی کرسکے تو کم سے کم کیچڑ نہیں اچھالیں گے، لیکن میری ٹیم نے بتایا کہ ’اُس نے آپ کے بارے میں ناصرف لاعلمی رکھی بلکہ آپ کے خلاف پروپیگنڈے کا حصہ بنا‘۔
عمران ریاض کے مطابق رانا ثناء اللہ نے کچھ دن پہلے ان کی ٹیم سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ سیاسی بیانات تھے تو ان پر برا نہ منایا جائے۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ میں کمزور تھا میرے بس میں کچھ نہیں تھا۔ انہوں نے میزبان سے سوال کیا کہ ’مجھے آپ بتائیں آج پاکستان کا میڈیا جو خبر چلاتا ہے وہ کیا میڈیا ہی بناتا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مسنگ پرسنز (لاپتا افراد) کے بارے میں یہ سوچ بنائی گئی ہے کہ ان میں بہت سے دہشتگرد ہوتے ہیں جنہیں قانونی کمیوں کی وجہ سے ’غائب کرنا پڑتا ہے‘۔
عمران ریاض نے کہا کہ ’وہ سوچ جو پھیلائی گئی تھی مجھے اس پر اب افسوس ہے، کہ میں نے کبھی زندگی میں یہ سوچا بھی کہ کوئی اگر کبھی غائب ہوا تو وہ ریاست کے مفاد میں ہوسکتا ہے، میں معافی مانگ لیتا ہوں اس کے اوپر ان سارے لوگوں سے جن کا دل دکھا ہو‘۔
انہوں نے کہا کہ ’کسی کو بھی غائب کرنا کبھی بھی جسٹیفائیڈ (قابل جواز) نہیں ہے‘ دورانِ حراست موت کی افواہوں پر عمران ریاض نے کہا کہ ’وہ آپشن آسان تھا، میرے سے پوچھے کہ (اس دوران) کیا آسان تھا تو وہ آسان تھا‘۔ انہوں نے کہا کہ میری فیملی بتاتی ہے کہ وہ ان کیلئے قیامت کی طرح تھا، ’بندہ نہ رہے اس کی باڈی تو مل جائے نا، باڈی مل جائے تو سکون آجاتا ہے، خبر آپ کو مل گئی اب باڈی نہیں مل رہی تو بہت مشکل ہے‘۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں اسی ڈر سے باہر نہیں گیا کہ کہیں باہر ہی نہ رہ جاؤں۔ انہوں نے کہا کہ ’میرا تمام چینلز کو مشورہ ہے ابھی مجھے نوکری نہ دیں‘۔ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں لوئر کورٹس کی انصاف پسندی پر حیران ہوں، میری سوچ کبھی بھی یہ نہیں تھی‘۔
سوشل میڈیا کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ پورا ڈائنامکس ہی تبدیل ہوگیا ہے، اور اس کی کسی کو سمجھ نہیں آرہی، یہ جِن ہے بھوت، یہ نہیں جائے گا، اس کے قوانین بنانے پڑیں گے، آپ اس کو ذمہ دار تو کر سکتے ہیں کنٹرول نہیں کرسکتے، اس کو بس قانون کے دائرے میں لے آؤ۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں کے کہا کہ حوصلہ تو ٹھیک ہے، صحت بھی ٹھیک ہے، بولنے کے معاملات ایک دو دن سے بہتر ہوئے ہیں، اس میں سب سے زیادہ مدد قرآن مجید نے کی ہے، باقی زندگی میں اس کتاب کے فائدے ہی گنتا رہوں تو وہ ختم نہیں ہوسکتے، میں نے پہلی دفعہ محسوس کیا کہ یہ کتاب تو باتیں کرتی ہے۔
عمران ریاض خان کا یہ انٹرویو ان کے وکیل میاں اشفاق نے ایک پاڈ کاسٹ میں کیا جو میاں اشفاق کے بقول ان کے یوٹیوب چینل کی پہلی پاڈ کاسٹ ہے۔ اس انٹرویو کے حوالے سے خبریں پہلے ہی گرم تھیں اور دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ عمران ریاض خان کوئی نیا کردار ادا کرنے والے ہیں۔