یہاں موجود کوئی بھی کچھ کہنا چاہتا ہے تو کہہ سکتا ہے، فائل فوٹو
یہاں موجود کوئی بھی کچھ کہنا چاہتا ہے تو کہہ سکتا ہے، فائل فوٹو

چیف جسٹس نے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس کل طلب کرلیا

اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے 14 دسمبر ( کل )کو سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس طلب کر لیا ہے جبکہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے معاملے پر چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے ججوں کو کھلا خط لکھ دیا ہے ۔اجلاس جمعرات کو ججز بلاک کانفرنس روم میں ڈھائی بجے ہو گا۔ اجلاس میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف مس کنڈکٹ کے الزامات کے معاملے میں کارروائی کی جائے گی۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ سیکریٹری سپریم جوڈیشل کونسل نے اس ضمن میں کونسل میں شامل پانچوں ممبران کو نوٹس بھیج دیا ہے۔واضح رہے کہ 4 دسمبر کو جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے رجسٹرار سپریم کورٹ کے نوٹس کا جواب جمع کرایا تھا۔

جواب میں موقف اپنایا تھا کہ میں نے 2 آئینی درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کر رکھی ہیں، میری دونوں آئینی درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا کہنا تھا کہ میری استدعا ہے کہ میرے خلاف جاری شوکاز نوٹس واپس لیا جائے، میری آئینی درخواستیں 3 رکنی کمیٹی کے سامنے رکھی جائیں۔بعد ازاں سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف کاروائی کے معاملے میں جسٹس مظاہر نقوی نے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے ججز کو کھلا خط لکھ دیا ہے،جس میں انہو ں نے لکھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود نے سابق چیف جسٹس کو میرے خلاف کارروائی کرنے کے لیے خطوط لکھے،سپریم کورٹ اور پاکستان کی عوام کے علاوہ کسی کے لیے فرائض سرانجام نہیں دے رہا،میں پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کے ہاتھوں کھیلنے سے انکار پر اس کے نتائج بھگت رہا ہوں،میں کاروائی کا آخر تک مقابلہ کروں گا،یہ میری ذات کا نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے وقار کا معاملہ ہے،سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز الاحسن کا رجسٹرار سپریم کورٹ کو لکھا گیا خط ظاہر کرتا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی کیسے خلاف ورزی کی جا رہی ہے،جسٹس اعجاز الاحسن کا خط بتاتا ہے کہ تین رکنی کمیٹی کے اجلاس میں سینیارٹی کی بنیاد پر بینچز کی تشکیل کا فیصلہ ہوا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اس موقع پر یہ بینچ تشکیل کیوں دیا اس کا فیصلہ آپ جج صاحبان خود کریں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے تحت ہونے والی کونسل کی کارروائی پر میرا یقین نہیں۔