سپریم کورٹ کا نااہلی کی مدت سے متعلق تمام کیسز ایک ساتھ سننے کا فیصلہ

اسلام آباد(اُمت نیوز)سپریم کورٹ نے نااہلی کی مدت سے متعلق تمام کیسز ایک ساتھ سننے کا فیصلہ کرتے ہوئے تاحیات نااہلی کیس جنوری 2024 میں سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دے دیا ہے، اور ریمارکس دیئے کہ کیس کے زیرالتوا ہونے کو الیکشن میں تاخیر کیلئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔

سپریم کورٹ نے نا اہلی کی مدت سے متعلق میر بادشاہ قیصرانی کیس کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا ہے، اور عدالت نے نااہلی کی مدت سے متعلق تمام کیسز ایک ساتھ سننے کا فیصلہ کیا ہے۔

سپریم کورٹ کے تحریری حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ نااہلی مدت کے سوال والے کیسز جنوری کے آغاز پر مقرر کئے جائیں، کیس کے زیرالتوا ہونے کو الیکشن میں تاخیر کیلئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔

حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے نشاندہی کی آئینی سوال والے کیس پر کم از کم پانچ رکنی بنچ ضروری ہے، کیس کمیٹی کی جانب سے تشکیل دیئے گئے بنچ کے سامنے مقرر کیا جائے۔

سپریم کورٹ کے تحریری حکمنامے کے مطابق 2008 کےعام انتخابات میں الیکشن لڑنے کیلئے کم ازکم تعلیمی قابلیت گریجویشن تھی، کچھ امیدواروں نے جعلی ڈگریاں جمع کرائیں جس پر انہیں نااہلی اور سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا، درخواست گزار کو تاحیات نااہلی کے ساتھ 2 سال کی سزا سنائی گئی، دو سال سزا کے خلاف اپیل لاہور ہائیکورٹ ملتان بنچ میں زیر التوا ہے۔

حکمنامے میں ہے کہ درخواست گزار کے مطابق جھوٹا بیان حلفی جمع کروانے کی سزا آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تا حیات نااہلی ہے، اور الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 232 (2) کے تحت نااہلی کی مدت پانچ سال ہے، جب کہ الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم 26 جون 2023 کو کی گئی، لیکن جب الیکشن ایکٹ سیکشن 232(2) کو چیلنج کرنے کے حوالے سے پوچھا گیا تو وکلا کی جانب سے لاعلمی کا اظہار کیا گیا، اور تمام وکلا نے کہا کہ آئندہ عام انتخابات میں سپریم کورٹ کے حکم اور الیکشن ایکٹ کے سیکشن 232(2) سے غیر ضروری کنفیوژن پیدا ہوگی۔

حکمنامے کے مطابق فریقین کے وکلا نے کہا کہ نااہلی کی مدت کے تعین کے حوالے سے عام انتخابات سے پہلے اس عدالت کا فیصلہ ضروری ہے، غیر یقینی کی صورتحال کی وجہ سے الیکشن ٹربیونلز اور عدالتوں میں مقدمات کا بوجھ بڑھے گا۔

تحریری حکمنامے میں ہے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت آئین کی تشریح کے لیے پانچ رکنی لارجر بینچ ہونا چاہیے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ وفاقی قانون، آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی تشریح کا معاملہ ہے جو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔

حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن، اٹارنی جنرل اور تمام صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کیے جاتے ہیں، عوام کی سہولت کے لیے انگریزی اور اردو کے بڑے اخبارات میں بھی نوٹس شائع کیے جائیں۔

عدالت نے آئینی و قانونی نکات پر تحریری جواب طلب کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ ان اپیلوں اور ان میں اٹھائے گئے سوالات کی وجہ سے آئندہ عام انتخابات کو مؤخر کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا، درخواستوں کو آئندہ سال جنوری 2024 میں سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔