اسلام آباد: سپریم کورٹ نے معزل جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید سمیت 4 افراد کو نوٹس جاری کر دیا ۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی ، عدالت نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی ریٹائرڈ لیفٹیننٹ فیض حمید، سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ انور کاسی اور رجسٹرار ارباب عارف، سابق بریگیڈیئر عرفان رامے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا ۔
دوران سماعت معزول جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے سنگین الزامات عائد کیئے جانے کے بعد سپریم کورٹ نے چار افراد کو نوٹس جاری کیئے ہیں ،چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ان چار افراد پر سنگین الزامات ہیں، ان کو دفاع کا موقع ملنا چاہیے ، اگر یہ افراد چاہتے ہیں تو وہ عدالت میں آ کر اپنا دفاع کر سکتے ہیں ،وہ بتائیں کہ ان پر لگے الزامات درست ہیں یا نہیں ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی پر براہ راست الزام نہیں تواسے نوٹس نہیں کر سکتے، اس سے عدالت کی بدنامی ہوتی ہے ۔
عدالت نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے وکیل سے باری باری تمام لوگوں کے بارے میں پوچھا کہ ان کو نوٹس کیوں جاری کیے جائیں ۔ جب ان چار لوگوں کو پر سنگین الزامات عائد کیئے گئے تو عدالت نے کہا کہ انہیں اپنے دفاع کا موقع ملنا چاہیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہ جنرل باجوہ کے بارے میں باتیں تو سنی سنائی ہیں، ابھی تک کوئی کڑی جنرل باجوہ سے نہیں جڑ رہی اس لیے انہیں نوٹس جاری نہیں کر سکتے ۔
آپ واپس بحال تو نہیں ہو سکتے،چیف جسٹس
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ شوکت صدیقی کو پنشن تو سرکار ویسے بھی دے گی ،شوکت صدیقی 62سال سے اوپر ہو چکے ہیں واپس بحال تو نہیں ہو سکتے۔
دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ اگر مسئلہ صرف پنشن کا ہے تو سرکار سے پوچھ لیتے ہیں آپ کو دے دیں گے،چیف جسٹس پاکستان نے کہا اگر ملکی تاریخ درست کرنا چاہتے ہیں تو بتا دیں ہم آپ کی مدد کرنے کو تیار ہیں، مقصد صرف پنشن ہے تو ٹھیک ہے وہ مل جائےگی ہم کسی کو بلانے کی زحمت کیوں دیں؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ ہمارے بندے کو استعمال کرکے کیوں کہا گیا کہ نوازشریف انتخابات سے پہلےباہر نہ آئیں?۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیاکہ کسی سیاسی جماعت کو نکالنے کیلئےیہ سب ہوا؟وکیل صلاح الدین نے کہاکہ جوڈیشل سسٹم پر دباؤ ڈال کر نوازشریف کو نکالا گیا،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ اس سے فائدہ کس کا ہوا؟کیا سندھ بار یا اسلام آباد بار کو فائدہ دینے کیلیے سب ہوا؟وکیل صلاح الدین نے کہاکہ ہم نے انکوائری کی درخواست کی تاکہ حقائق سامنے آئیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آگر سندھ بار شوکت صدیقی کی ہمدردی میں آئی کہ ان کو پنشن مل سکے تو یہ 184 تھری کا دائرہ اختیار نہیں بنتا،جسٹس جمال مندوخیل نےکہاکہ ہمارے بندے کو استعمال کرکے کیوں کہا گیا کہ نوازشریف انتخابات سے پہلےباہر نہ آئیں،وکیل صلاح الدین نے کہاکہ یہ الزام فیض حمید پر ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیاکہ بار کونسلز کیوں اس کیس میں آئیں؟وکیل نے کہاکہ تحقیقات چاہتے ہیں کہ کیا واقعی شوکت صدیقی کی برطرفی سابق چیئرمین پی ٹی آئی کو فائدہ پہنچانے کیلیے ہوئی۔