ایران (اُمت نیوز)ایران کی مسلح افواج ”پاسدارانِ انقلاب“ کی بحریہ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے ایک بڑے امریکی طیارہ بردار بحری جہاز کو خلیج فارس اور آبنائے ہرمز سے نکلنے پر مجبور کردیا ہے۔
ایرانی بحریہ کے کمانڈر ریئر ایڈمرل علی رضا تنگسیری نے جمعہ کو ایک بیان میں کہا کہ ایران کی بحری افواج امریکی طرایرہ بردار جیاز ”یو ایس ایس ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور“ کی قریب سے نگرانی کر رہی ہیں، جسے (ایران اور اسرائیل کے درمیان) ممکنہ کشیدگی کو روکنے کے بہانے خطے میں تعینات کیا گیا ہے۔
ایڈمیرل علی رضا نے کہا کہ ’یہ فلوٹیلا (بیڑہ) خلیج فارس میں 20 دن سے بھی کم عرصے رہا اور اس دوران مسلسل پاسدارانِ انقلاب کی بحری افواج کی انٹیلی جنس نگرانی میں رہا‘۔
علی رضا تنگسیری نے کہا کہ آئزن ہاور نے آبنائے ہرمز میں آئی آر جی سی نیوی کے ایئر ٹریفک کنٹرول سینٹر کی طرف سے درخواست کردہ تمام سوالات اور انٹیلی جنس کے مطلوبہ جوابات دیے۔
ایران نے اس حوالے سے ایک ویڈیو بھی جاری کی ہے جس میں مبینہ طور پر امریکی بحریہ کو خلیج فارس سے باہر نکلتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
ویڈیو میں ایرانی افواج کی طرف سے امریکی بحریہ کو حکم دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جس کے نتیجے میں امریکی بحریہ کے ہیلی کاپٹروں نے فوری لینڈنگ کی اور اس کے بعد طیارہ بردار جہاز نے علاقہ چھوڑ دیا۔
ایرانی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ امریکی بحری بیڑے کو ایران نے آبنائے ہرمز چھوڑنے پا مجبور کیا گیا۔ تاہم اس حوالے سے جاری ایک ڈرون فوٹیج پر ابہام پائے جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ایکس“ پر اس واقعے کی گردش کرتی ویڈیو کے حوالے سے صارفین نے ”ریڈرز نوٹ“ میں لکھا کہ ’ڈرون ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ کیریئر گروپ (بحری بیڑہ) انڈر وے ریپلیشمنٹ (UNREP) میں مصروف ہے جبکہ ہیلی کاپٹر عمودی ریپلیشمنٹ (VERTREP) کے ذریعے سپلائی منتقل کر رہے ہیں۔
’مزید برآں، ڈرون کی ویڈیو خود دکھاتی ہے کہ اسے دو دسمبر کو وسطی خلیج فارس میں عکس بند کیا گیا تھا، نہ کہ آبنائے کے قریب‘
اس خطے میں حال ہی میں ایک نازک سمندری صورتحال رہی ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ موجودہ حالات فلسطین کے تنازعے کا براہ راست نتیجہ ہیں، امریکہ نے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جنگ شروع کرنے کے فوراً بعد اپنے دو بڑے طیارہ بردار بحری جہاز خطے میں روانہ کر دیے تھے۔
واشنگٹن نے اس وقت کہا تھا کہ جنگی بحری جہاز علاقائی دشمنیوں کے پھیلاؤ کو روکنے اور اسرائیل اور اتحادیوں کو دوسرے ممالک کے خطرات سے بچانے کے لیے بھیجے گئے تھے۔
ایران کی جانب سے یہ دعویٰ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکی بحریہ بحیرہ احمر میں عرب ملک کی بندرگاہوں سے گزرنے والے یمنی حوثی باغیوں کے اسرائیل سے منسلک بحری جہازوں پر حملوں کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔