اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا ہوگا، فائل فوٹو
اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا ہوگا، فائل فوٹو

بلاول تین حلقوں سے الیکشن لڑیں گے

ارشاد کھوکھر:
آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سندھ میں قومی اسمبلی کے تین حلقوں سے حصہ لیں گے۔ جن میں لاڑکانہ، لیاری اور ڈیفنس کا حلقہ شامل ہے۔ جبکہ آصف علی زرداری اور ان کی چھوٹی بہن عذرا پیچوہو ضلع بینظیر آباد (نوابشاہ) سے، بڑی بہن فریال تالپور لاڑکانہ سے، ان کے شوہر منور تالپور میرپور خاص سے عام انتخابات میں حصہ لیں گے۔

اس کے علاوہ بلاول بھٹو کی بہن آصفہ بھٹو کو بھی ضلع ٹنڈوالہ یار سے میدان میں اتارا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما آفتاب شعبان میرانی اور منظور وسان انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔ پیپلز پارٹی نے کراچی ڈویژن میں تمام صوبائی اور قومی اسمبلی کے حلقوں سے اپنے امیدوار کھڑے کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ اندرون سندھ میں ماسوائے چند امیدواروں کے، باقی تمام ان امیداروں کو پارٹی ٹکٹ ملے گا، جنہیں 2018ء میں پارٹی ٹکٹ دیا گیا تھا۔ تمام امیدواروں کو 13 جنوری سے قبل پارٹی ٹکٹ جاری کیے جائیں گے۔

پیپلز پارٹی کی قیادت نے سندھ میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے تمام 191 حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جن میں 130 صوبائی اسمبلی کی جنرل نشستیں اور 61 قومی اسمبلی کے حلقے شامل ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری لاڑکانہ کے ساتھ ایک بار پھر لیاری کے حلقے سے بھی الیکشن لڑیں گے۔

اس کے علاوہ ضلع جنوبی کے قومی اسمبلی کے ڈیفنس، کلفٹن کے علاقوں پر مشتمل حلقے سے بھی انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ 2018ء کے انتخابات میں بلاول بھٹو لاڑکانہ سے کامیاب ہوگئے تھے۔ لیکن لیاری کے حلقے میں انہیں پی ٹی آئی کے امیدوار شکور شاد سے شکست ہوئی تھی۔

مذکورہ ذرائع کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ ضلع جنوبی میں ایک حلقے کے اضافے کے ساتھ قومی اسمبلی کے تین حلقے ہونے کی وجہ سے پہلے کے مقابلے میں لیاری کا حلقہ پیپلز پارٹی کیلئے محفوظ سمجھا جارہا ہے۔ کیونکہ 2018ء میں مذکورہ حلقے میں لیاری سے باہر والے علاقے کٹ گئے ہیں۔

سابق صدر مملکت آصف علی زرداری خود ضلع بینظیر آباد (نوابشاہ) سے قومی اسمبلی کے حلقے سے انتخابات میں حصہ لیں گے۔ جبکہ ان کی چھوٹی بہن عذرا پیچوہو مذکورہ ضلع میں صوبائی اسمبلی کے حلقے سے اور ان کی بڑی بہن فریال تالپور ضلع لاڑکانہ کی تحصیل رتو ڈیرو پر مشتمل صوبائی حلقے سے الیکشن میں حصہ لیں گی۔ جبکہ فریال تالپور کے شوہر میر منور تالپور ایک بار پھر ضلع میرپور خاص سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑیں گے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری کی چھوٹی بہن آصفہ بھٹو زرداری کو ضلع ٹنڈوالہ یار سے قومی اسمبلی کے حلقے سے الیکشن لڑوانے پر بھی غور کیا جارہا ہے۔ ایسا ہونے کی صورت میں سابق ایم این اے ذوالفقار بچانی کیلئے قومی اسمبلی کے ٹکٹ کی گنجائش نہیں رہے گی۔ تاہم مذکورہ ذرائع کا کہنا ہے کہ آصفہ بھٹو کو لیاری سے بھی انتخابات لڑانے کا سوچا جا رہا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو پھر وہاں بلاول بھٹو بھی امیدوار نہیں ہوں گے۔

ضلع ٹھٹھہ میں صوبائی اسمبلی کا ایک حلقہ کم ہونے کے باعث پیپلز پارٹی کیلئے مسئلہ ہے۔ جبکہ مذکورہ ضلع میں سینیٹر سسی پلیجو کی کوشش ہے کہ اس مرتبہ انہیں ٹکٹ الاٹ ہو۔ جبکہ ٹھٹھہ کے شیرازی برادران کی بھی خواہش ہے کہ 2018ء کے مقابلے میں ان کے خاندان کی نشستیں کم نہ ہوں۔

ضلع گھوٹکی میں سردار علی گوہر مہر اور سابق ایم پی اے شہریار شر کی شمولیت کے بعد مذکورہ ضلع میں پیپلز پارٹی کے ایک دو پرانے امیدوار پارٹی ٹکٹ سے محروم ہو سکتے ہیں۔ یہی مسئلہ ضلع شکارپور میں بھی ہے۔ غوث بخش مہر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔ انہیں یا ان کے بیٹے شہریار مہر کو پیپلز پارٹی ٹکٹ دے گی۔ ضلع جیکب آباد میں بھی پی ٹی آئی کو چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں شامل ہونے والے ایم پی اے اسلم ابڑو کی وجہ سے پیپلز پارٹی کیلئے پارٹی ٹکٹ کے اجرا کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اس نوعیت کے چھوٹے موٹے مسائل کا انہیں دیگر اضلاع میں بھی سامنا ہے۔

سوائے چند نئے امیدواروں کے، پیپلز پارٹی نے باقی تمام ان امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ الاٹ کرنے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے، جنہیں 2018ء میں ٹکٹ دیا گیا تھا۔ ضلع شکارپور سے امتیاز شیخ، عابد بھیو، آغا سراج درانی پھر الیکشن لڑیں گے۔

سابق وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، ملک اسد سکندر اور سکندر راہپوٹو کو ضلع جامشوروسے پارٹی ٹکٹ ملنے کا امکان ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما آفتاب شعبان میرانی اس مرتبہ الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے۔ ان کی جگہ خورشید جونیجو کو ضلع لاڑکانہ کے بجائے اب ضلع قمبر شہداد کوٹ سے الیکشن لڑوایا جائے گا۔ جبکہ خورشید جونیجو کی جگہ لاڑکانہ کے قومی اسمبلی کے حلقے کا ٹکٹ نذیر بوگھیو کو ملے گا۔

حال ہی میں پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے عادل انڑ تحصیل ڈوکری اور باڈہ پر مشتمل حلقے میں زور آزمائی کریں گے۔ ضلع لاڑکانہ میں تحصیل باکرانی کے صوبائی حلقے سے سہیل انور سیال کو پارٹی نے کلیئرنس دے دی ہے۔ جبکہ ضلع قمبر شہداد کوٹ میں قومی اسمبلی کے دوسرے حلقے سے میر عامر مگسی کو ٹکٹ ملے گا۔

اس طرح مذکورہ ضلع میں باقی بھی پرانے امیدوار ہوں گے۔ جن میں میر نادر مگسی، سردار چانڈیو اور برہان الدین چانڈیو شامل ہیں۔ سید خورشید شاہ، نعمان، اسلام شیخ، ناصر حسین شاہ، فرخ شاہ، ضلع سکھر سے الیکشن لڑیں گے۔ ضلع تھرپارکر میں پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی کے وہی پرانے امیدوار ہوں گے۔ جن میں مہیش ملانی اور شیر محمد بلالانی شامل ہیں۔ جبکہ قاسم، سراج سومرو بھی ننگر پارکر سے الیکشن لڑیں گے۔

ضلع دادو میں بھی تقریباً پرانے امیدواروں کو ہی پارٹی ٹکٹ ملے گا۔ البتہ ضلع خیرپور میں تھوڑی بہت تبدیلی ہوسکتی ہے۔ شرجیل انعام میمن، جام خان شورو، انجینئر عبدالجبار کا پھر سے ضلع حیدرآباد سے پارٹی ٹکٹ پکا ہے۔ ضلع جیکب آباد میں اعجاز جکھرانی پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سابق صوبائی وزیر محمد میاں سومرو کا مقابلہ کریں گے۔ واضح رہے کہ 2018ء کے انتخابات میں اعجاز جکھرانی، محمد میاں سومرو سے ہار گئے تھے۔

اسی طرح مخدوم جمیل الزماں ضلع مٹیاری سے، شازیہ مری ضلع سانگھڑسے الیکشن لڑیں گی۔ جبکہ اس مرتبہ سابق صوبائی وزیر منطور وسان الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے۔ وہ ضلع خیرپور میں تحصیل کوٹ ڈیجی کے جس حلقے سے الیکشن لڑتے تھے۔ اب وہ مذکورہ حلقے میں اپنے بیٹے بیرسٹر ہالار کو پارٹی ٹکٹ دلوانے کے خواہشمند ہیں۔