کراچی کے اہم اضلاع ڈرگ انسپکٹرز سے محروم ہیں، پوسٹنگ نہ ہونے سے جعلی و اسمگل شدہ ادویات مافیا کو ریلیف ملنے لگا، فائل فوٹو
کراچی کے اہم اضلاع ڈرگ انسپکٹرز سے محروم ہیں، پوسٹنگ نہ ہونے سے جعلی و اسمگل شدہ ادویات مافیا کو ریلیف ملنے لگا، فائل فوٹو

ادویات کے سرکاری نرخ طے نہ ہونے سے عوام پریشان

عمران خان :
حکومتی اداروں اور ادویہ ساز کمپنیوں کے درمیان سرکاری نرخوں کے معاملات طے نہ ہونے سے عوام پریشانی کا شکار ہیں۔ اس صورتحال میں جہاں ملک بھر میں مقامی ادویات کی ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ بڑھ گئی ہے۔ وہیں جعلی ادویات کی تیاری اور اسمگلنگ میں بھی بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے۔ جبکہ مافیا میں شامل بڑے ڈیلرز، سپلائرز اور درآمد کنندگان نے صورتحال کا فائدہ اٹھاکر کروڑوں روپے کا ناجائز منافع بٹورنا شروع کر دیا ہے۔

’’امت‘‘ کو میڈیسن مارکیٹ کے ذرائع نے بتایا کہ اس وقت ملک بھر میں وائرل فیور، نزلہ، زکام، کھانسی، ٹی بی اور آپریشن کے دوران خون روکنے سمیت مختلف امراض کی 262 اینٹی بائیوٹک اور دیگر انتہائی ضروری ادویات کا بحران پیدا ہوچکا ہے۔ درجنوں فارما کمپنیوں نے اپنے اخراجات میں اضافے کو جواز بناکر مذکورہ ادویات تیار کرنا بند کردی ہیں۔

فارما کمپنیوں کا موقف ہے کہ ان تمام ادویات کا 95 فیصد خام مال بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑتا ہے۔ جس کی ادائیگیاں زر مبادلہ میں ہوتی ہیں۔ جبکہ آخری سرکاری نرخ 2 برس قبل طے ہوئے تھے۔ جن میں سالانہ 10 فیصد اضافہ کرنے کی کمپنیوں کو اجازت ہوتی ہے۔ جس کا تعلق ہر سال بڑھتی ہوئی مہنگائی، بجلی اخراجات اور دیگر مدات میں کیا جاتا ہے۔ تاہم چونکہ دو برس میں ڈالرکی قیمت میں 50 تک اضافہ ہوچکا اور شرح سود بھی بہت بڑھ چکی ہے۔ اس لئے خام مال منگوا کر ادویات تیار کر کے پرانے نرخ پر فروخت کرنا ممکن نہیں۔

مارکیٹ ذرائع کے مطابق مذکورہ 262 دوائیں ناپید ہونے سے پہلے مریض انتہائی پریشان ہیں۔ جبکہ جو شہری تگ و دو کرکے انہیں بلیک مارکیٹ سے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ انہیں ان ادویات کی 500 فیصد زائد قیمتیں ادا کرنی پڑ رہی ہیں۔ کیونکہ یہ ادویات ڈیلرز اور سپلائرز بیرون ملک سے منگوا رہے ہیں یا اسمگلرز سے لے رہے ہیں۔ وہ انہیں اپنے من مانے نرخوں پر فروخت کر رہے ہیں۔ جبکہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اور وزارت صحت کے حکام اس صورتحال کے مستقل حل کے اقدامات کو مسلسل لٹکا رہے ہیں۔ جس سے مستقبل قریب میں خدا ناخواستہ انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔

اس حوالے سے تفصیلات جاننے کیلئے ’’امت‘‘ نے ملک میں ادویات ساز کمپنیوں کو لائسنس جاری کرنے والے اور سرکاری نرخوں کا تعین کرنے کے ذمہ دار ادارے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) اور متعدد فارما کمپنیوں کے نمائندوں سے معلومات حاصل کیں۔ جس میں انکشاف ہوا کہ یہ صورتحال گزشتہ 4 ماہ سے چل رہی ہے اور وزارت صحت و ڈریپ حکام کے علم میں ہے اور انہیں اس کی سنگینی کا بھی اندازہ ہے۔ تاہم ملک میں جاری سیاسی اور معاشی صورتحال کے تناظر میں جہاں ارباب اختیار کی توجہ بعض دیگر اہم ملکی امور پر مرکوز ہے۔ وہیں اس اہم معاملے پر کوئی ٹھوس پالیسی بنا کر حل کرنے کے بجائے صرف وقت گزارنے اور اپنے جان چھرانے کیلئے التوا میں رکھا جا رہا ہے۔

دوسری جانب فارما کمپنیوں نے اپنے منافع میں کمی کے جواز کے تحت ان ادویات کیلئے خام مال منگوانے اور انہیں تیار کرکے فروخت کرنے سے صاف انکار کردیا ہے۔ جس کے نتیجے میں عملی طور پر انسانی جانوں سے براہ راست منسلک یہ اہم معاملہ اب بلیک مارکیٹنگ، اسمگلنگ اور جعلی ادویات کا کاروبار کرنے والوں کے رحم و کرم پر ہے۔

’’امت‘‘ کو معلوم ہوا کہ رواں برس ماہ اگست میں جب اہم ادویات ملک بھر کی مارکیٹوں میں ناپید ہونے اور کئی گنا زائد نرخوں پر فروخت ہونے کی اطلاعات حکومتی اداروں کو موصول ہوئیں تو وزارت صحت اور ڈریپ حکام نے اس معاملے پر کارکردگی دکھانے کیلئے تیزی دکھائی۔ جبکہ اس میں ملوث عناصر کیخلاف کارروائیاں کرنے کے کئی دعوے بھی بیانات کی صورت میں داغے گئے۔ تاہم جب ان اقدامات کے نتیجے میں اصل وجوہات رپورٹوں کی صورت میں حکام کو موصول ہوئیں تو اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے کے بجائے خاموشی اختیار کرلی گئی۔

اگست میں ڈریپ کی ٹیموں کی جانب سے ملک بھر کی میڈیسن مارکیٹوں اور اسٹوروں کا ایک سروے کیا گیا۔ جس میں معلوم ہوا کہ کئی ادویات کی مکمل اور کئی کی جزوی قلت ہے۔ جبکہ ان کی قیمتیں بھی غیر قانونی طور پر بہت زیادہ ہیں۔ ایسی ادویات میں اینٹی بائیوٹک، وائرل انفیکشن کی ادویات کے ساتھ ٹیگرال ٹیبلٹس، زالاٹان ڈراپس، ٹرنیلان ٹیبلٹس، نووومیکس پین، زینیکس ٹیبلٹس، اوگمینٹن ٹیب، انسولین، وینٹولین انہیلر، فولک ایسڈ، ہائیڈرلازین سمیت ٹی بی، بخار، درد، وائرل فیور، نزلہ، زکام، کھانسی، زخم سکھانے کی ادویات، سرجیکل آلات، شوگر اور دیگر امراض کی اہم ادویات شامل ہیں۔

ڈریپ کی ٹیموں نے ملک بھر میں ادویات کی تیاری کیلئے آنے والے خام مال، ادویات کی ذخیری اندروزی اور غیر قانونی برآمد کے پہلوئوں کو شامل تفتیش کیا۔ تاکہ جن کمپنیوں کی ادویات مارکیٹ سے غائب ہوئی ہیں۔ ان سے مذکورہ پہلوئوں کے حوالے سے چھان بین کیلئے اگلے مرحلے میں شوکاز نوٹس دیئے جاسکیں۔

بعد ازاں اسلام آباد میں متعلقہ کمپنیوں کے نمائندوں، ڈریپ حکام اور صوبائی ڈرگ ڈپارٹمنٹس کے درمیان اہم ملاقاتیں ہوئیں۔ جس میں کمپنیوں کو اپنا موقف رکھنے کا موقع دیا گیا اور متعدد میٹنگز میں کمپنیوں کی جانب سے اپنا تفصیلی موقف پیش کیا گیا۔ اس صورتحال میں سرکاری افسران کی جانب سے مسئلے کے حل کیلئے ایک تجویز یہ بھی پیش کی گئی کہ بعض بڑی اور معروف ملکی و غیر ملکی فارماسوٹیکل کمپنیوں کی اجارہ داری ختم کرنے کی حکمت عملی پر کام شروع کیا جائے۔

بڑی اور معروف ملٹی نیشنل و ملکی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی اہم ادویات مقامی چھوٹی اور غیر معروف فارما کمپنیوں سے تیار کرواکر مارکیٹ سے بحران ختم کرنے کی حکمت عملی اپنائی جائے۔ کیونکہ بڑی بین الاقوامی کمپنیاں اپنا خام مال یورپ سے منگواتی ہیں۔ جو بہت مہنگا ہوتا ہے۔ جبکہ مقامی چھوٹی کمپنیاں بھارت سے سستا خام مال درآمد کرکے انہیں فارمولوں کی سستی ادویات بنا سکتی ہیں۔ جس سے عوام کو بہت بڑا ریلیف مل سکتا ہے۔