عمران خان :
شہریوں کے موبائل نمبرز، شناختی کارڈز اور فنگر پرنٹس ڈیٹا کے بعد شہریوں کے ’’کالز ڈیٹا ریکارڈ‘‘ یعنی سی ڈی آرز کی غیر قانونی فروخت اور تاوان وصولی کا انکشاف سامنے آگیا۔ یہ عقدہ ایف آئی اے کو ٹیلی کمیونیکشن کمپنیوں کی شکایات سے کھلا۔ موبائل کمپنیوں سے شہریوں کا کالز ڈیٹا لینے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران کی آئی ڈیز استعمال کی گئیں۔ بعض شہریوں نے اپنا مطلوبہ کال ریکارڈ حاصل کرنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں موجود اہم ریکارڈ تک رسائی رکھنے والی کالی بھیڑوں کو بھاری رقوم دے غیر قانونی سودا طے کیا۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق پاکستانی شہریوں کے سی ڈی آرز کی غیر قانونی خرید و فروخت اور بلیک میلنگ کے ذریعے بھاری رقوم بٹوری گئیں۔ ذرائع کے بقول سی ڈی آر یعنی کالز ڈیٹا ریکارڈ وہ اہم مواد ہوتا ہے، جو نجی موبائل کمپنیاں صرف اور صرف قانون نافذ کرنے والے متعلقہ اداروں کو مقدمات اور انکوائریوں کی تفتیش میں باقاعدہ طلب کرنے پر فراہم کرتی ہیں ۔اس کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران اپنے اعلیٰ حکام کے ذریعے نجی موبائل کمپنیوں کو باقاعدہ خطوط ارسال کرتے ہیں۔
ذرائع کے بقول ماضی کے کئی برسوں سے ہی پاکستان میں انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ شہریوں کے موبائلنمبرز اور شناختی کارڈز کا حساس ڈیٹا سوشل میڈیا پر لیک ہوکر فروخت ہوتا رہا ہے۔ اسی طرح سے شہریوں کے فنگر پرنٹس اور ووٹر لسٹوں کا ڈیٹا بھی جعلسازوں کیہاتھ لگتارہا ہے جس کو استعمال کرکے اب تک لاکھوں کی تعداد میں موبائل سمیں شہریوں کے نام پر فعال کروا کر جرائم پیشہ افراد سائبر کرائمز کے لئے استعمال کرچکے ہیں۔ جس میں خواتین وغیرہ کو بلیک میل کرنے سمیت بینک فراڈز، جعلی انعامی اسکیموں کے فراڈ اور بینظیر انکم سپورٹ اور احساس پروگرام کے نام پر کروڑوں روپے کی جعلسازیاں شامل ہیں۔
مثال کے طور پر یہاں کئی ایسی ایپس اور ویب سائٹس ہیں جن پر شہریوں کے نمبرز ڈالے جائیں تو ان کے شناختی کارڈز کی تفصیلات سامنے آجاتی ہیں، جن پر یہ سمیں ایکٹو ہوتی ہیں۔ اس میں نام، شناختی کارڈ نمبر اور علاقہ کا نام بھی شامل ہوتا ہے۔ یہ اہم معلومات ہوتی ہیں جوکہ صرف ان ٹیلی کمیونکیشن کمپنیوں کے پاس محفوظ ہوتی ہیں جن سے صارفین سم خرید کر اپنے نام رجسٹرڈ کرواتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ جب شناختی کارڈ نمبر مل جاتا ہے تو اس پر رجسٹرڈ صارف کے دیگر موبائل سم نمبرز بھی مل جاتے ہیں۔ یہ تمام ڈیٹا غیر قانونی طور پر دستیاب ہے۔
ذرائع کے مطابق سی ڈی آرز کا ریکارڈ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تحقیقات میں اہم رہنمائی فراہم کرتا ہے، کیونکہ اس میں مطلوبہ شخص کے موبائل فون نمبر پر موصول ہونے والی کالز کے نمبرز اور ڈائیل کی جانے والی تمام فون کالزنمبرز کا ریکارڈ ہوتا ہے جس میں نہ صرف اس مطلوبہ شخص کی لوکیشن ظاہر ہوتی ہے۔ بلکہ جو افراد اس کو فون کرتے ہیں یا وہ جن کو فون کرتا ہے ان کی لوکیشن بھی ظاہر ہوجاتی ہے۔ اگر دن بھر میں اس شخص کی لوکیشن تبدیل ہوتی رہے تو وہ بھی سی ڈی آر میں ظاہر ہوجاتی ہے۔
اس طرح سے سی ڈی آر ایک انتہائی حساس نوعیت کے مواد پر مشتمل ڈیٹا ہوتا ہے جس کو اسی لئے پرائیویٹ افراد کے ہاتھ لگنے نہیں دیا جاتا کہ اس کے نتیجے میں موبائل فون صارفین کی نجی معلومات کو غلط استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ پرائیویسی بھی شدید متاثر ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی کے علاوہ نجی کمپنیوں کے اپنے قواعد اور وفاقی اداروں کے قوانین کے مطابق یہ ریکارڈ صرف قانون نافذ کرنے والے ملکی اداروں کو ہی طلب کرنے پر موبائل کمپنیاں فراہم کرنے کی مجاز ہوتی ہیں۔ تاہم تحقیقاتی اداروں کے سامنے ایسے شواہد آئے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروںکے بعض افسران نے شہریوں کا کالز ڈیٹا ریکارڈ پیسوں کے عوض فروخت کرنے کا جرم کیا ہے اور اس کے لئے اعلیٰ پولیس افسران کی آئی ڈیز استعمال کی گئی گئیں۔
یہ انکشاف اس وقت سامنے آئے جب ملک کی ایک معروف نجی ٹیلی کمیونیکشن کمپنیوں کی جانب سے ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کے حکام کو بذریعہ ایک وفاقی ادارے کے خط لکھ کر آگاہ کیا کہ ان کی ٹیم کے سامنیمتعدد مقامات سے شہریوں کی سی ڈی آرز حاصل کرکے ان کو اوپن مارکیٹ میں فروخت کرنے کے حقائق سامنے آئے۔ چونکہ یہ ایک انتہائی سنگین معاملہ تھا اس لئے مذکورہ درخواستوں میںاس معاملے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے کے سائبر کرائم سے متعلق شعبے کے ماہرین سے نہ صرف تحقیقات کے لئے کہا گیا۔ بلکہ اس غیر قانونی کام میں ملوث افراد کا سراغ لگا کر انہیںکے خلاف کارروائی کے لئے بھی کہا گیا۔
ذرائع کے مطابق موبائل فون کالز کی سہولت فراہم کرنے والی اس نجی کمپنی کی جانب سے ارسال مراسلے میں نشاندہی کی گئی کہ دیگر مقامات کے علاوہ کراچی میں ایک قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ضلعی افسر کے دفتر سے متعدد افسران کی آفیشل آئی ڈیز کو شہریوں کی سی ڈی آرز کے حصول کے لئے استعمال کیا گیا۔ ان آئی ڈیز کے ذریعے موبائل ٹیلی کمیونیکشن کمپنیوں کے حکام کو شہریوں کے کال ڈیٹا کی فراہمی کے لئے ہدایات جاری ہوئیں۔
ذرائع کے بقول یہ معاملہ یہیں تک محدود نہیں رہا بلکہ شہریوں کے اس نجی حساس ڈیٹا کو استعمال کرکے ان سے آن لائن تاوان بھی وصول کیا گیا۔ اسی طرح سے اسی نوعیت کا کام پنجاب کے ایک علاقے کے ضلعی افسر کے دفتر سے رونما ہوا۔ جہاں سے سرکاری آئی ڈیز اس غیر قانونی کام کے لئے استعمال کی گئیں ۔
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے مذکورہ درخواستوں پر تحقیقات کے لئے متعلقہ افسران کے دفاتر اور استعمال ہونے والی آئی ڈیز کے حوالے سے چھان بین شروع کی گیں جس میں متعلقہ ریکارڈ طلب کیا گیا۔ ذرائع کے بقول تحقیقات میں اس پہلو کو بھی شامل رکھا گیا کہ اعلیٰ افسران کے ماتحت کام کرنے والے بعض اہلکار بھی ان وارداتوں میں ملوث ہوسکتے ہیں، جنہیں روزمرہ کی بنیاد پر متعلقہ اداروں اور کمپنیوں سے مطلوبہ ریکارڈ کے لئے خط و کتابت کی ذمے داری دی جاتی ہے اور عمومی طور پر افسران اس معاملے میں اپنے با اعتماد ماتحت اہلکاروں کو ہی تعینات رکھتے ہیں۔ خدشات ہیں کہ جرائم پیشہ عناصر کے علاوہ دہشت گرد بھی اپنے مقاصد کے لئے سسٹم میں نقب لگا کر ڈیٹا حاصل کرسکتے ہیں۔