نواز طاہر :
پنجاب اور بالخصوص صوبائی دارالحکومت لاہور پی ٹی آئی کی انتخابی قیادت سے محروم ہوگیا ہے اور اس کی نظریں اب عدلیہ سے ریلیف پر مرکوز ہوگئی ہیں۔ جہاں سے اسے بلے کے انتخابی نشان کا عبوری ریلیف ملا ہے۔ واضح رہے کہ عمران خان کے کاغذات نامزدگی ان کے جزوی آبائی حلقے این اے ایک سو بائیس سے مسترد ہوئے ہیں۔ تحریکِ انصاف کی بانی رہنما، سابق وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کے ان کے آبائی حلقہ این اے ایک سو تیس سے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہوئے۔ جو ان دنوں سانحہ نو مئی سمیت دیگر مقدمات کا سامنا کر رہی ہیں اور جیل میں ہیں۔
اسی طرح پی ٹی آئی رہنما اور سابق وزیر حماد اظہرکے کاغذاتِ نامزدگی بھی مسترد ہوگئے ہیں۔ جبکہ لاہور میں پی ٹی آئی کے ایک رہنما میاں اسلم اقبال سانحہ نو مئی کے بعد سیاسی منظر سے غائب ہیں اور اس بار وہ بھی میدان میں نہیں۔ ان رہنمائوں کے کاغذات نامزدگی قبول نہ کرنے اور انہیں الیکشن لڑنے کیلئے اہل قرار دینے کیلئے اعتراضات دائر کیے گئے تھے۔
عمران خان پر توشہ خانہ ریفرنس میں سزا کی بنیاد پر اعتراض مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے سابق رکن پبجاب اسمبلی میاں نصیر احمد کی طرف سے دائر کیا گیا تھا۔ جسے تسلیم کرتے ہوئے عمران خان کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیئے گئے۔ پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم پر الیکشن لڑنے کیلئے سردار لطیف خاں کھوسہ کے بیٹے خرم لطیف کھوسہ کے کاغذات نامزدگی بھی منظور نہ ہو سکے۔ گزشتہ الیکشن میں لاہور سے بلے کے نشان پر کامیابی حاصل کرنے اور وفاقی وزیر بننے والے شفقت محمود بھی سیاسی منظر نامے پر موجود نہیں۔ سابق وزیر میاں محمود الرشید بھی نو مئی کے واقعات میں قانون کا سامنا کر رہے ہیں۔ جبکہ سابق وزیر تعلیم ڈاکٹر مراد راس نو مئی کے واقعات کے بعد استحکام پاکستان پارٹی قائم ہونے سے پہلے ہی پی ٹی آئی کو خیر باد کہہ گئے تھے۔
پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر گزشتہ الیکشن میں شکست کھانے والے جمشید چیمہ اور خواتین کی مخصوص نشست پر پنجاب اسمبلی کی سابق رکن و ترجمان پنجاب حکومت مسرت جمشید چیمہ بھی سیاسی منظر سے غائب ہیں اور پرانے کارکنوں سے بھی رابطے میں نہیں۔ یہیں سے الیکشن جیت کر سینئر صوبائی وزیر رہنے والے علیم خان عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران ہی کنارا اختیار کرگئے تھے اور اس وقت وہ استحکام پاکستان پارٹی کے اہم قائدین میں شامل ہیں اور اسی جماعت کے امیدوار ہیں۔
اس طرح گزشتہ الیکشن کے اہم سپورٹر اور موجودہ الیکشن میں اہم امیدوار پی ٹی آئی کی طرف سے دستیاب نہیں رہے اور لاہور کے حلقے اور انتخابی سرگرمیوں میں پی ٹی آئی کا نعرہ لگانے والا کوئی رہنما باقی نہیں رہا۔ پیپلز پارٹی کے سابق رہنما و پنجاب کے سابق گورنر سردار لطیف خاں کھوسہ ایڈووکیٹ اور اظہر صدیق ایڈووکیٹ عمران خان کے متبا دل امیدوار کے طور پر کاغذات نامزدگی داخل کروانے کی وجہ سے انتخابی عمل میں موجود ہیں۔ سیالکوٹ سے عثمان ڈار، ملتان سے مخدوم شاہ محمود قریشی خاندان کے کاغذات نامزدگی بھی منظور نہیں ہوئے۔
ادھر استحکام پاکستان پارٹی، جماعت اسلامی، تحریکِ لبیک سمیت کسی بھی دوسری جماعت کا کوئی امیدوار اس مرحلے میں انتخابی عمل سے باہر نہیں ہوا۔ پی ٹی آئی کے وکیل اظہر صدیق نے کینٹ کچہری میں عمران خان کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے پر الیکشن ٹریبونل کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ سے بھی رجوع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ان کے بقول ہمارا اصل اعتراض سول انتظامیہ سے ریٹرننگ افسر لینے پر تھا اور اس کے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ عدلیہ نے قانونی پہلوئوں اور قانونی ذہن کے تحت فیصلے کرنے ہیں اور ہم ریلیف کی امید رکھتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے اب تک کے شیڈول کے مطابق انتخابی عمل میں پنجاب اور خاص طور پر لاہور میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ کیلئے سیاسی میدان اوپن ہے اور اس کا مقابلہ اس وقت اس کے اپنے ہی امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ جاری کرنے کا دکھائی دے رہا ہے۔ جبکہ پارٹی قائد میاں نواز شریف کے کسی بھی فیصلے کیخلاف یہاں سے کسی امیدوار کی طرف سے بغاوت یا آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کو بھی خارج از امکان قرار دیا جارہا ہے۔
نون لیگی ذرائع کے مطابق پارٹی ٹکٹ کا اعلان ہوتے ہی تمام امیدوار باقاعدہ انتخابی دفاتر قائم کرکے الیکشن مہم شروع کردیں گے اور لاہور کو مسلم لیگ ’’ن‘‘ کا قلعہ ثابت کریں گے۔ لیگی رہنما رانا اسد علی خان کے مطابق پی ٹی آئی ابھی کہیں نظر نہیںآرہی۔ انتخابی عمل میں اور نتائج میں واضح ہوجائے گا کہ اس نام کی سیاسی جماعت تھی بھی یا نہیں۔ وہ ایک خاص راستے سے آئی تھی۔ جسے عوام نے موقع ملتے ہی ختم کر دیا۔